لمہ وطن – ریحان عزیز

386

لکیریں کینچھی جا چکی ہیں، اب کوئی بیچ راستہ نہیں بچا ہے، قابض اور مقبوضہ نوآبادیات اور دیسی باشندوں کے درمیان کا لکیر اب واضح نہیں ننگا ہو چکا ہے۔ اب ثبوت نہیں بچا کہ اور انتظار کرنا پڑے اب کوئی راستہ نہیں بچا کہ قابض کو پہچاننے میں کوئی مشکل پیش آئے اب سب کچھ واضح اور ننگا ہوچکا ہے ہم کون اور ہمارے اوپر مسلط کون اب بھی کوئی اگر قابض کی طرف دیکھ کر کچھ اچھا کرنے یا ان سے امید لگا بیٹھے گا تو ایسے لوگوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اب جب قابض ریاست اپنے آپ کو اتنا ننگا کرچکا ہے کہ ہماری میتوں پر پابندی جنازوں پر روکاٹیں شہروں میں کرفیو، مواصلات کا نظام درہم برہم غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے والوں کو دھمکی جنازہ میں شرکت کرنے والوں کیلئے رکاوٹیں قبر پر رکھی بیرک سے خوفزدہ۔

اب واضح ہو چکا ہے کہ قابض کہ خلاف اٹھنا ہوگا شدت سے مزاحمت کرنا ہوگا مزاحمت کاروں کو مزاحمت کی صفوں میں نئے طریقے کار سے جدت سے سوچ نظریہ سے ایسے پلان تیار کرنے ہونگے کہ قابض کو اپنی دیس سے نکالا جائے اُسے اسکی زبان میں سمجھایا جائے کہ ہم بحثیت ایک غلام قوم اب منظم ہیں اب ہم قابض کی ننگی جاریت کو پہچان چکے ہیں۔ اب آپ کی لوٹ مار لاپتہ قتل اور تشدد ناکام ہوچکا ہے، اب کی بار ہماری طرف سے ہوگا اب اس جنگ کی شدت آپ کی برداشت قوت سے باہر ہوگا اور یہ آخری جنگ ہوگی فیصلہ کن جنگ خونخوار خوفزدہ ڈری ہوئی ریاست اور وطن کی جانباز سپاہیوں کے درمیان ہوگی اور شکست آپ کی مقدر ہوگی۔ دیر یا جلد اب آپ کی شکست پکی ہے۔ اب آپ کو ننگا ہوکر نکلنا ہوگا بس کچھ ہی دیر کی بات ہوگی آپ کو تاریخ کے اوراک میں ذلت و رسوا ہونا ہوگا جب یہ جانباز جنگ کی شدت کو بڑھائینگے تو آپ کو اس جنگ کی شدت کا پہلے سے کوئی اندازہ نہیں ھوگا اس کی شدت آپ کی پرخیں اڑا لے گا اور آپ کو نیست و نابود کر کے اپنی دیس سے نکال دے گا۔

سیاسی تنظیموں کو اب اپنی جدوجہد مزید تیز کرنے ہونگے اب اپنی پلان سوچ فکر منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلانا چاہئیے اب ریاست کی سفاکیت مظلوم عوام کہ سامنے آچکی ہے اب سیاسی پارٹیاں اس کو مزید عیاں کرنے کی کوشش تیز کریں ۔

سیاسی پارٹیوں سے مراد ہر گز وہ سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں جو ریاست کی بنائی ہوئی اسمبلیوں میں مختلف القابات استعمال کرکے قوم کی نمائندگی کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ اپنی تقریروں میں ہماری مدعا بیان کرنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں لیکن آخر میں کہتے ہیں
” میں بحثیت ایک پاکستانی یہ کہتا ہوں کہ یہ ظلم بند کرو ” یہ عوامی نمائندے نہیں ہیں ۔

بقول فینن یہ اب بھی قابض ریاست کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ اب بھی کچھ نہیں ہوا ہے اگر آپ اپنی رویہ نرم رکھیں تو ہم ان کو سنبھالیں گے۔

لیکن اب عام عوام تک کوچہ وبازار تک ایسے سیاسی لیڈر اور نمائندے ریاستی پالیسیوں کے ساتھ واضح ہوچکے ہیں یہ بات تو وطن کی کرتے ہیں لیکن شائد ان کو اپنی مفادات زیادہ عزیز ہیں اسلیئے یہ کھل کر آزادی کی بات کرنے سے کتراتے ہیں اسلیئے یہ اپنی تقریروں میں اپنے آپ کو پاکستانی کہہ کر ریاست کا ساتھی کہتے ہیں ۔

اسمبلیوں میں بیٹھ کر چیخ پکار کر کہ اپنی وطن کی لوٹی ہوئی وسائل کی حساب لگا کر ریاست سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے حق ہمیں دیا جائے ان رونے والوں سے امید نہیں لگا کہ بیٹھنا ہے ۔

بلکہ ریاستی پالیسوں کی ساتھ ساتھ ان نام نہاد سیاسی نمائندوں کو بھی پہچاننا ہوگا۔ ایسے تاریخ میں کس قوم نے آزادی حاصل کی ہے کس قوم نے ایسے قابض کو اپنی وطن سے نکالا ہوگا کہ آپ مظلوم قوم کی مدعا پیش کرتے ہو آخر میں اپنے آپ کو قابض کا ساتھی کہہ کر تقریر ختم کرتے ہو۔

“میری ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں میری عزت وننگ کو تم لوگوں نے پامال کردیا”

ایسے جذباتی باتیں کرنے والے مظلوموں کے نمائندے نہیں ہیں جب بات واضح ہوچکی ہے تب سے واضح ہے جب سے قابض نے قبضہ کرلیا ۔پھر ان ہی کی عدالتوں پر ان ہی کہ ایوانوں میں ایسے تقریوں کا نہ کوئی فائدہ ہوا ہے نہ ہوگا ایسے میں کچھ ناپختہ ذہنیں ان لوگوں سے امید لگا بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ ہمارے لیئے کچھ کریں گے ایسا کچھ نہ پہلے ہوا نہ اب ھوگا ۔

لمہ وتن
بانک
گودی

محکوم اقوام دنیا کہ کسی کونے میں جب بھی قابض کہ خلاف کھڑے ہوں گے تو آپ کی کردار کو ضرور سامنے رکھیں گے آپ کی نڈر بہادری اپنی غلام قوم سے محبت اور اپنی وطن سے کئے ہو کمٹمنٹ کے مثالیں ضرور دیں گے۔

آپ کی جہدوجہد میں اگر مگر نہیں تھا، آپ کی جہدوجہد ایک محکوم کیلئے اور ایک قابض کی قبضہ گیریت کے خلاف تھی ۔

آپ کا کردار کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے آپ کا کردار اپنی قوم وطن سے محبت روشن ستاروں کی طرح عیاں ہے آپ جیسی انقلابیوں کی خوبی یہی ہے آپ لوگ مر نہیں جاتے ہو بلکہ امر ہوجاتے ہو اپنی سانسیں وطن کہ حوالے کرکے مزید اپنی جیسی کئی انقلابی جنم دیتے ہو آپ کی ایسی بیچ راستے میں جدائی شائد اس قوم کو کمزور کرسکے محکوم قوم کی بے بسی کو ظاہر کرسکے لیکن آپ نے ان ہی مظالم کے سامنے ان ہی رکاوٹوں کہ بیچ اپنی کردار احسن طریقے سے نبھا کر قوم کو راستہ دکھا کر چلے گئے۔

آپ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر چلے گئے، پتہ نہیں یہ محکوم کمزور قوم آپ کی طرح آپ کی کام کر سکے یا نہیں لیکن ہاں یہ قوم اپنی طریقے سے یہ کام جاری رکھے گا آپ کی خواب کو ضرور پورا کریں گے کیونکہ اگر یہ قوم بزدل ہوتا آپ جیسی کردار کو یہ قوم جنم نہیں دیتی نہ آپ ایسی عظیم کام کو اپنی کندھوں پہ اٹھانے کی عہد کرتی ۔

ہاں یہ قوم کمزور ضرور ہے اس وطن کی مائیں اداس ضرور ہیں اس مٹی سے پیدا ہونے والے مرد بے بس ضرور ہیں لیکن یہ قوم کمزور طاقت کہ ساتھ ابھرے گی یہ اداس مائیں آپ جیسی کئی بانک جنم دیں گے یہ بےبس بھائی اپنی بندوقوں کے ذریعے اپنی قلم کی ذریعے اپنی سیاسی پلان اپنی پختہ نظریہ کے زریعے دشمن سے لڑنے اور اس کو اپنی دیس سے نکالنے کی عہد کر چکے ہیں ۔رہتی دنیا تک آپ کی کردار یاد رکھا جائے گا۔ الوداع لمہ وطن


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں