شفیق مینگل ایک عالمی دہشت گرد
تحریر: بی بی ناز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر کاونٹر کرنے کے لئے بلوچستان کو مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا آماجگاہ بنادیا گیا ہے، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، داعش جیسے عالمی تنظیموں کو پاکستانی آرمی اور آئی ایس آئی نے بلوچستان میں محفوظ پناہ گاہیں بناکر دی ہے اور چھاونیوں کے ایریا میں ان کے نامی گرامی کمانڈروں کو رہائش گاہیں فراہم کی گئی ہیں۔ مذہبی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے کمانڈروں کو بلوچستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنا اور مزاحمتی جنگ کو عالمی سطح پر دہشت گردانہ جنگ ڈیکلیئر کرنا مقصود ہے لیکن عالمی قوتیں افغانستان میں پاکستانی فوج کی مشکوک کردار سے ان گمراہ کن پروپیگنڈوں کو بخوبی جان گئے ہیں، اس لئے عالمی طاقتیں پاکستان پر بھروسہ کرنے کے لئے کسی صورت تیار نہیں اور حالیہ دنوں میں جو تبدیلیاں عالمی سطح پر رونما ہوئے، اس دوران پاکستان نے جو پراگندہ گیم کھیلنے کی کوشش کی پاکستان کی اس ڈبل پالیسی نے اسے تنہا کردیا ہے۔ سعودی عرب سمیت عرب ممالک، امریکا و دیگر طاقتوں سے پاکستان کی سفارتی تعلقات انتہائی حد تک خراب ہوچکے ہیں، سعودی عرب اپنی ادھار دئیے گئے پیسے واپس مانگ رہی ہے پاکستان نے ایک قسط چین سے لے کر سعودی عرب کو واپس کردی اور دوسری قسط عنقریب واپس کرنا ہے۔
یہ تمام واقعات ایک ایسے وقت میں وقوع پذیر ہورہے ہیں جب پاکستان شدید معاشی، سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ ان حالات میں جب اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کا شکار ہے اور اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کی پلیٹ فارم سے فوج کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کے لئے تحریک چلارہے ہیں، وہاں پاکستان مختلف معاشی بحرانوں میں گرتا جارہا ہے کیونکہ سیاسی بحران معاشی بحرانوں کو جنم دیتا ہے، اس کے علاوہ براڈ شیٹ اور نیب جیسے بدعنوانیوں کے قصے بھی ان دنوں زبان زد عام ہے۔
ان تمام سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی و فکری بحرانوں کا ذمہ دار بہت حد تک پاکستان کی آرمی اور انٹیلی جینس ادارے ہیں اور جو سیاست دانوں کو دیوار سے لگا کر غیر معروف اور غیر جمہوری لوگوں کو اقتدار سونپ دیتے ہیں۔ بلوچستان میں یہ تجربہ نیپ کی منتخب جمہوری حکومت کو جبری طور پر ختم کرنے بعد تاحال جارہی ہے۔
ریاست اس طرح کی اقدامات کے ذریعے بلوچستان میں اپنی غیر قانونی جبری قبضہ کو دوام بخشنے کی کوشش کررہی ہے لیکن ریاست کے یہ تجربے بلوچستان میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں اور قومی آزادی کی تحریک و سوچ ختم ہونے کے بجائے دن بدن شدت سے پروان چڑھ رہی ہے، آزادی کی تحریک اور سوچ کو ذہنوں سے ختم کرنے کے لئے پاکستان نے جبری الحاق سے لیکر تاحال صرف طاقت کا سہارا لیا ہے، طاقت کے استعمال سے نفرت نسل در نسل بلوچوں میں منتقل ہوچکی ہے، آزادی کی سوچ ایک مضبوط و ناقابل شکست روپ دھار چکا ہے، اس مضبوط و مستحکم قومی سوچ کو ختم کرنے کے لئے بلوچستان کو مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بنایا گیا ہے۔ کشمیر، فلسطین و افغانستان کی جہادی تنظیموں کو بلوچستان میں منتقل کی گئی ہے، یہاں سے ان کو آپریٹ کرکے بلوچستان کے علاوہ افغانستان اور سندھ میں دہشت گرد کاروائیاں کی جاتی ہیں۔
بلوچستان میں ہزارہ برادری پر جتنی خود کش بم حملے ہوئے ہیں اس میں ریاست کے پالے ہوئے کرائے کے قاتل ملوث ہیں۔ شفیق مینگل اور سراج رئیسانی قابض ریاست کے وہ بدنما چہرے اور بدبودار کردار ہیں۔ جن کے کردار سے انسانیت شرمندہ ہے۔ بین الاقوامی واچ ڈاگ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں دہشتگردوں کی سرپرستی اور مالی معاونت کرنے پر شامل کی ہے، پاکستان بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لئے بظاہر کچھ دہشتگردوں کو سزا دے رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں یہ ڈرامہ صرف بین الاقوامی واچ ڈاگ کو گمراہ کرنے کے لئے رچایا جارہا ہے، درحقیقت پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی دہشت گردوں کی معاونت کار اور سہولت کار ہے، حافظ سعید، ذکی الرحمان لکھوی جیسے دہشت گرد آرمی کے اثاثے ہیں ان کو سزا دینا محض فریب ہے، شفیق مینگل اور رمضان مینگل جیسے بدنام زمانہ دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہیں جو پاکستان کی دوغلا پن کا واضح ثبوت ہے۔
شفیق مینگل ریاستی فوج کے ان گود لئے گئے بگڑے بچوں میں سے ہے جو انسانی خون کا سودا کرتے ہیں، خون بہانا اور قتل عام ان کا مشغلہ ہے۔ شفیق، سراج رئیسانی، زیب زہری، کوہی خان، رمضان مینگل فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کا مرتکب ہوئے ہیں، 2008 اور 2009 میں شفیق مینگل نے مسلح دفاع نامی مسلح تنظیم تشکیل دے کر مسخ شدہ لاشیں پھینکنے، قوم پرست کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ جبری گمشدگیوں میں سرگرم عمل رہے، طلباء، ڈاکٹروں، وکلاء، صحافی حضرات، سیاسی و سماجی کارکنوں معروف صحافی ارشاد مستوئی، منیر شاکر، عبدالحق زہری، معروف سماجی کارکن سبین محمود، خضدار سے تعلق رکھنے والے نعیم صابر، ڈاکٹر داود عزیز، ایڈوکیٹ عبدالسلام ایڈوکیٹ و انکی کمسن بیٹی کے علاوہ طلباء تنظیم بی ایس او (آزاد) بی این ایم اور بی این پی کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ہیں، بلوچستان میں مارو و پھینکو پالیسی تاحال تسلسل سے جارہی ہیں۔
2014 میں ضلع خضدار میں توتک کے علاقے سے اجتماعی قبریں دریافت کئے گئے تھے، جہاں سے 169 لاشیں ملی تھیں وہاں شفیق مینگل مقیم تھے، وہ کمپاونڈ ان کے زیر استعمال تھا، ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکانزئی کے ماتحت بننے والی ٹرائیبونل میں اجتماعی قبروں سے شفیق مینگل کی وابستگی کی تصدیق 20 سے زائد عینی شاہدین نے کی تھی۔ 2014 میں چوری و اغواء برائے تاوان میں گرفتار اپنے ساتھیوں کو چھوڑوانے کے لئے وھیر لیویز چیک پوسٹ پر اپنے 100 کے قریب مسلح غنڈوں کے ہمراہ حملہ کرکے 8 لیویز اہلکاروں کو قتل کیا تھا اس واقعے کے ایف آر میں وہ نامزد ہے۔
مستونگ کے مقام پر مختلف حملوں میں ہزارہ برادری کے سینکڑوں زائرین کو بیدری سے قتل کیا گیا، 8 اگست 2016 کو سول اسپتال میں وکلاء پر خود کش حملہ کیا گیا اس سانحہ میں 56 بلوچ و پشتون وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے، اس خوفناک حملے میں بلوچ و پشتونوں کے اعلی تعلیم و شعور یافتہ طبقے کو نشانہ بنایا گیا، 25 اکتوبر 2016 کو پولیس ٹریننگ کالج پر حملے میں 61 اہلکاروں کو قتل کیا گیا تھا، 13 نومبر 2016 کو خضدار میں شاہ نورانی کے مزار میں خود کش دھماکہ سے کم از کم 54 افراد ہلاک، 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے، 5 اکتوبر 2017 کو ضلع جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر ایک مزار پر ہونے والے ایک حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، اس کے علاوہ سہیون شریف خودکش حملہ سمیت دیگر ایسے بہت سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں شفیق مینگل کی ملوث ہونے کے شوائد بھی ملے ہیں۔ بلکہ 2015 میں سانحہ صفورہ گوٹھ واقعہ کے گرفتار ملزم سعد عزیز نے دوران تفتیش جے آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ صفورہ گوٹھ سانحے میں بس پر حملہ کرکے اسماعیلی فرقے کے 40 افراد کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا گیا، جن میں خواتین بھی شامل تھے، ملزم نے شفیق مینگل سے تعلق اور باڈڑی وڈھ میں جہادی ٹریننگ کیمپ کا بھی انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اسلحہ و بارود بھی وڈھ سے مہیا کیا جاتا رہا ہے۔
جے آئی ٹی کی یہ رپورٹ سمیت دیگر واقعات کے متعلق تفتیش کاروں نے شفیق مینگل کو مرکزی ملزم کے طور پر نامزد کیا ہے اس کے باوجود ریاستی اداروں کی جانب سے انہیں مکمل پروٹوکو ل فراہم کیا جاتا ہے، ایف سی کے کئی پلٹون ان کے پروٹول میں شامل ہوتے ہیں، شفیق مینگل انجینیرڈ انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں، اب کوئٹہ میں مقیم ہے دندناتے ہوئے بلا روک ٹوک گھوم رہا ہے، جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتا ہے، جام حکومت کے جانب سے انہیں اربوں روپے فنڈز مہیا کئے گئے ہیں، آنے والے سینیٹ انتخابات میں حکومتی جماعت باپ پارٹی انہیں سینیٹر منتخب کرنے کے لئے غور و فکر کررہی ہے۔
بلوچستان اور یہاں کے عوام گزشتہ ستر سالوں سے ریاستی جبر کا شکار ہے۔ اس سرزمین پر دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی ریاستی سرپرستی نے بلوچ سماج کو خون آلود کر کے ساتھ عوام کی احساس غلامی میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ عوام اب ریاست سے حفاظت کی امید ترک کرچکی ہے اور ایسے ایجینسیوں کے پالے ہوئے دہشتگردوں اور ریاستی پراکیسوں کو مسترد کرکے اپنی جان و مال حفاظت کے لئے راست قدم اٹھانے کے لئے اقدامات کررہی ہے جو پاکستان جیسی سیاسی اور معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑی ایک ناکام ریاست کے لئے نیک شگون نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں