بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل نے گذشتہ روز سائوتھ ایشاء پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے 65 بلین کدھر لگ رہے ہیں؟ بلوچستان میں تو کوئی ترقی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ گوادر، تربت وغیرہ میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سی پیک پراجیکٹ ابھی تک تو صرف اور صرف کاغذوں پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر جب بھی وزیراعظم عمران خان سے بات ہوئی تو وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف بھیج دیتے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ سیاسی مقاصد کے حصول اور وسائل کے لوٹ مار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے حتیٰ کہ یہاں کی حکومت سازی کااختیار بھی وفاق کے پاس نہیں، لاپتہ افراد کے معاملے پر جب بھی میری ملاقات عمران خان اور ان کے وزراء سے ہوتی تھی تو وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے طرف بھیج دیتے تھے، ہم عمران خان کی حکومت میں اس لئے شامل ہوئے کیونکہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 5128 لاپتہ افراد کی فہرست پارلیمنٹ میں جمع کروائی ان میں سے 450 کے قریب بازیاب ہوئے لیکن 1500 اور اٹھائے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
سردار مینگل نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ایک زمانے میں صرف پی ٹی وی یا محدود اخبارات کے ذریعے خبریں ملتی تھی لیکن آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے حالات سے سب باخبر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی بدحالی میں نہ صرف معاشی صورتحال بلکہ سیاسی حالات بھی شامل ہیں اور یہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ 1947 سے چلا آرہا ہے ہر آنے والے حکمرانوں نے بلوچستان کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کی، مقاصد کا مطلب بلوچستان کے وسائل لوٹے اور استعمال کیے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی باشندوں کو مسلمان اپنی جگہ انسان بھی نہیں سمجھا گیا یہ ایک عرصے سے لاوا پک رہا ہے اور لاوا اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ سکولوں میں پاکستان کا ترانا بھی لوگ بجانا پسند نہیں کرتے تھے۔ موجودہ حکومت ہو یا اس سے پہلے کی حکومت بارہا بلوچستان کے مسائل پر توجہ دلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمروں کی حکومت ان کی جانب سے بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ سیاست کا رواج ہے کہ ہر کوئی اپنے مقصد کیلئے سیٹوں کو استعمال کرتا ہے ہم نے حکومت سے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے معاہدہ کیا جن میں پہلا مطالبہ لاپتہ افراد کی بازیابی، افغان مہاجرین کی وطن واپسی، معدنیات کو بلوچستان کے حوالے کرنا، گوادر میں مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی سمیت دیگر مسائل حکومت کے سامنے رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وقت واضح کیا تھا کہ چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کا حل ایک راستہ ہے اور مختلف اوقات میں ہم وزیراعظم سے لیکر کمیٹی ممبران تک کو معاہدے کی یقین دہانی کراتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں دنوں میں نہیں بنتی بلکہ طویل جدوجہد کے بعد جا کر بنتی ہیں اور پھر الیکشن کے دوران منشور عوام میں لے جایا جاتا ہے۔
انہوں نے بلوچستان عامی پارٹی (باپ) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی الیکشن سے دو ماہ قبل بنی اور بناتے وقت فیصلہ بھی نہیں ہوپارہا تھا کہ اس کا نام کیا رکھا جائے، بلوچستان عوامی پارٹی جو نام رکھا گیا ہے وہ قوم پرست پارٹیاں ہوتی ہیں اس کی کوئی آدھا بھی قوم پرستانہ نہیں لگتی یہ جلد بازی میں نام رکھا گیا اصل میں اس کا نام پاکستان عوامی پارٹی رکھا جارہا تھا لیکن پھر انہیں یاد آیا کہ یہ تو پاپ بن جائے گا اور پھر پاپ سے ڈائیورٹ کرکے باپ بنایا گیا، اب پتہ نہیں کس کے باپ کا یہ پاپ ہے یہ بنانے والے لوگ جانتے ہیں۔