سُلگتا ہوا آواران
تحریر: لطیف لعل
دی بلوچستان پوسٹ
آواران کا شمار بلوچستان کے وسطی علاقے میں ہوتا ہے ۔تین تحصیلوں پر مشتمل یہ ضلع تقریباً 29510 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔اگر آبادی کی بات کریں تو 1998 کی اعداد شمار میں آواران کی آبادی 118173 نفوس پر مشتمل تھی، 2017 کی مردم شماری میں صرف تین ہزار 5 سو 7 نفوس کا اضافہ ہوا ۔ آواران کی آبادی کی شرح میں سب سے کم یعنی 0.15 فیصد اضافہ ہوا ۔کل آبادی 121680 بتائی جاتی ہے۔ 20 سال میں صرف تین ہزار نفوس کا اضافہ بتایا گیا ہے- اس اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ آواران میں صحیح معنوں میں اعدادو شمار نہیں ہوئے تھے۔
اگر پسماندگی کی بات کریں تو آواران بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔ جہاں غربت، بھوک ،افلاس بے روزگاری آواران کا مقدر بن چکا ہے۔ آج بھی آواران کے باسی پتھر کے زمانے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، آج کے اس جدید دور میں آواران کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ نہ بجلی، نہ گیس، نہ سڑکیں ، نہ اچھی تعلیم، نہ انٹرنیٹ کی سہولت ۔
اگر نظام تعلیم کی بات کریں تو بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نے آواران میں بند اسکولوں کی تفصیل جاری کی تھی، جس کے مطابق 176 اسکول بند ہیں ۔ ڈگری کالج آج تک صرف سرکاری کاغذوں تک محدود ہے۔ الف ایلیان کی ایک رپورٹ کے مطابق ، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ میں ضلع آواران بلوچستان کے سطح پر آخری نمبر پر ہے۔
اگر بے روزگاری کی بات کریں تو 4 گریڈ کی پوسٹ پر ہزاروں امیدوار ہونگے ، بد قسمتی سے آواران ایک ضلع ہونے کے باوجود بھی 4 گریڈ کے پوسٹ پر امیدواروں کو خضدار میں انٹرویو اور ٹیسٹ دینے کے لئے جانا پڑتا ہے ۔
اگر ہسپتال کی بات کریں تو آواران ہیڈکوارٹر کے ایک ہسپتال کے علاوہ کولواہ ،مشکے سمیت ضلع بھر کے دوسری جگہوں میں ڈسپینسری کی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر امیر بخش صاحب کی ذاتی دلچسپی ،ایماندار اور عوام دوستی اور کوشش سے ڈی ایچ کیو آواران میں علاج و معلاجے کی بنیادی سہولت موجود ہے، چونکہ جنرل سرجن، لیڈی ڈاکٹر اور دیگر عملے کی نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو کراچی ریفر کی جاتی ہے ۔ آواران کے باشندے ڈاکٹر امیر بخش صاحب کے شکر گذار ہیں، دو ایمبولینس ہمیشہ عوام کے خدمت کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔
آواران کے اگر روڈوں کی بات کریں، نہیں لگتاہے کہ کبھی ان روڈوں پر کام ہوا ہے، روڈ کافی عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں اور جگہ جگہ گڑھے پڑے ہیں۔ آواران ٹو کراچی تک لگ بھگ 330 کلو میٹر فاصلہ ہے، سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے کراچی ٹو آواران 8 سے 9 گھنٹے کا مسافت کرنا پڑتا ہے۔ اہلیان علاقہ بلخصوص مریضوں کو سخت مشکلات ہوتی ہے ۔ آواران سے مشکے یا آواران سے گیشکور ، مالار، گشانگ تک چند کلو میٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں سفر کرنا پڑتا ہے ۔
بد قسمتی سے ، قدرتی آفتوں نے آواران کو مزید صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ خشک سالی ہو، 2007 کے سیلاب ہو یا 2013 کا ہولناک زلزلہ، قدرتی آفتوں کے بعد آنے والے جو فنڈز اور پیکجز حکومت کی طرف سے سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگاں کیلئے اعلان کیا گیا تھا، وہی فنڈز آج تک آواران کے بے بس لوگوں پر صیح معنوں میں خرچ نہ ہوئے لوٹ ماری، کرپشن، ناقص کارکردگی کی وجہ سے آواران اس دلدل سے کبھی نہ نکل سکا ۔
پسماندگی اور غربت، بھوک اور افلاس، بے روزگاری، سے بڑھ کر خوف کا فضاء بھی قائم ہے، شام سات بجے کے بعد لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں سو سی سی ہارس پاور سے اوپر موٹرسائیکل بھی چلانے کی اجازت نہیں ہے۔
پسماندگی اور خوف کی فضاء نے آواران کے قدرتی خوبصورتی کو بھی مسخ کیا ہوا ہے ۔ اگر وہاں کے خوبصورت پہاڑوں کو دیکھیں دل میں ڈر پیدا ہو جاتا ہے درختوں کے پتوں میں بھی وہ خوبصورتی دکھائی نہیں دیتا، ایسا لگتا ہے یہ درخت بیماری کے شکار ہیں۔
آواران کے نمائندگوں کی قسمت ہمیشہ اچھی رہی ہے کہ یہ کبھی بھی اپوزیشن میں نہیں رہے ہیں۔ ہمیشہ حکومت میں ہوتے ہیں اور وزارت بھی ملتی ہے- قدوس بیزنجو کی بات کریں تو قدوس صاحب 2002 سے 2008 تک منسٹر لائیو سٹاک 2013 اور 2018 کے دورانیئے میں ڈیپٹی اسپیکر، اسپیکر، بعدازاں نواب ثنا اللہ زہری حکومت کے خلاف عدام عتماد کی تحریک کے بعد وزیر اعلیٰ بنے ۔ وزارت اعلیٰ سنبھالتے ہی ہر جمعے کو کوئٹہ میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا ۔اس دوران میڈیا پر کھلی کچہری کا چرچا چل رہا تھا، آواران کے عوام اس وقت حیران تھے اور خوش بھی، حیران اس لیے تھے کہ آواران میں قدوس صاحب کا کھلی کچہری تو اپنی جگہ الیکشن کے بعد تو کبھی نظر بھی نہیں آتا ہے ۔ خوش اس لئے شاید اب آواران میں کھلی کچہری ہوگی اب عوام کے مسائل حل ہونگے ۔
2018 کے الیکشن میں میر قدوس بیزینجو صاحب دوبارہ منتخب ہوئے، موجودہ بلوچستان کے ڈپٹی اسپیکر بھی ہیں، شاید میر قدوس بیزینجو صاحب اسپیکر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دوسروں کے مسائل سن رہے ہیں۔ آواران کے لئے وقت نہیں مل رہا ہوگا ۔
2018 کی الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی کے لیے آواران سے محترم میر احسان اللہ ریکی صاحب منتحب ہوئے جو آج تک لاپتہ ہیں۔ آواران کے لوگ جانتے بھی نہیں اس فرشتے کو۔
آواران میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 2020 کے آخر میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے آواران میں اپنی کابینہ تشکیل دی اور اس کے بعد ایک سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی ، بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی آواران میں اپنی کابینہ تشکیل دی ۔ نیشنل پارٹی بھی وجود رکھتا ہے اچھی بات یہ کے خالی آواران کے نان ٹیچنگ اسٹاف کے پوسٹوں کی بے ضابطہ بھرتیوں کے خلاف آل پارٹی آواران نے عدالت میں پیٹیشن دائره کی۔
چونکہ آواران میں سیاسی گراؤنڈ ناپید ہے یہاں کے باشندے یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ہم نے کس کو ووٹ دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ ہمارا نمائندہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ
آواران میں اس وقت اشد سیاسی گراونڈ کی ضرورت ہے جہاں عوام کو شعوری طور پر بیدار کریں اپنی محرومی اور پسماندگی کو ختم کرنے لیے ہمیں جاگنا ہو گا ۔
بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کی جانب سے شبیر رخشانی کی سربراہی میں آواران میں جنوری 2020 میں ادبی میلہ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں بلوچستان پھر سے علم اور ادب سے منسلک لوگوں نے اس ادبی میلے میں شرکت کی۔ مختلف لکھاری اس ادبی میلے کے بارے اپنے خیالات لکھے، جس میں عابد میر بھی شامل تھے چونکہ عابد میر نے آواران کا سفر ، آواران کے آرٹسٹ سے مکالمہ اور کتاب دوست آواران کے نام سے مختلف تحریریں لکھیں اور اپنے فیس بک وال سے شائع کی، اس وقت یہ تحریر میں بہت شوق سے پڑھتا تھا اور اس امید اور انتظار کے ساتھ کہ عابد میر اور فرید مینگل کے دوسرے تحریر پڑھنے کو کب ملیں گے۔
لیکن اس خوشی میں اضافہ تب ہوا جب 2021 کے پہلے ہفتے میں عابد میر اور شبیر رخشانی کی لکھی ہوئی کتاب :آواران سے یاری ” علم ادب پبلیشر کی جانب سے شائع ہوا۔
آواران کے عوام عابد میر اور شبیر رخشانی کے اس انمول تحفے کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں