مند سورو بازار سے مئی 2013 کو جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے سمیر صابر کے بھائی نے ان کو منظر عام پر لانے اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
لاپتہ سمیر صابر کے چھوٹے بھائی نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ میرے بھائی کو 8 سال قبل سورو بازار سے مسلح افراد اغواء کرکے لے گئے، سمیر صابر سرکاری ملازم ہے اور محمکہ فشریز میں ڈرائیور کے عہدے پر فائز تھا۔
جسی صابر نے انسانی حقوق کے اداروں اور وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی بھی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیئے جائیں۔
سمیر صابر کی والدہ گذشتہ آٹھ سالوں سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے لاپتہ افراد کے کیمپ میں بیٹے کی بازیابی کے لئے اپنے احتجاج رکارڈ کرا رہی ہے۔ سمیر صابر کی والدہ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ بیٹے کے تصویر کے ساتھ زار و قطار رو رہی ہے۔
Heart Wrenching
She Is A Baloch mother From Occupied Balochistan Who has been waiting for her beloved for 8 years. Her Son Sameer was abducted 8 years ago by Pakistani forces from Mand Balochistan #SaveSameerBaloch #EndEnforcedDisappearances pic.twitter.com/0FGLQ2m0bt— Basham Baloch (@Basham_Baloch12) January 16, 2021
سمیر صابر کے جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کی جانب سے #SaveSameerBaloch کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کیمپئن چلائی جارہی ہے جبکہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سمیر صابر اور دیگر لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاکر فری ٹرائل کا موقع دیا جائے۔
بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے اپنا احتجاج رکارڈ کرا رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں غیر آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی ہے حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔