سالِ نو – برزکوہی

707

سالِ نو

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سال نو کی آمد کی خوشی میں جھومتے جم غفیر میں فقیر بڑا سے گھڑی ہاتھ میں پکڑے داخل ہوتے ہی زور سے اپنی عصا زمین پر دو بار مارنے کے بعد بلند آواز بولنے لگا “آنے والے وقت پر جھومنے والوں اور گذرے وقت پر ماتم کرنے والوں، سنو! میری بات سنو! وقت محض ایک سماجی ترتیب ہے، ریت کے ذرے گرتے رہیں یا گھڑی کے چہرے پر سوئی گھومتی رہے، کلینڈر کے صفحے کٹتے، گرتے ہوئے سال پورا کرلیں، یہ سب محض ایک موضوعی ادراک ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ کیا سال بدلنے سے حال بدل جائے گا؟ نہیں جتنے بھی نئے سال آئیں، گنتی بدلے گی زندگی نہیں۔ تم نے جو بھی سنا ہے، سب بھول جاو، نا وقت زخم بھرتا ہے، نا زندگی بدلتی ہے اور نا قوموں کے مستقبل سنوارتی ہے، وقت محض مٹھی میں بند راکھ ہے۔”

پورا مجمعہ اس فقیر کی جانب متوجہ ہوا اور مجمعے سے کسی کی بھاری آواز گونجی ” او پاگل! گر وقت نہیں، گر نئے ماہ و سال نہیں، پھر تبدیلی کیا ہے؟ پھر قوموں کی زندگی بدلتا کون ہے؟
فقیر نے بند گھڑی زمین پر رکھتے ہوئے بولا “وقت کچھ نہیں بدلتا، سب کچھ وقت کو بدلنے والے بدلتے ہیں۔ نئے سال نہیں، نئے انسان بدلتے ہیں۔ جس ذہن اور جس انسان نے جو مسائل جنم دیئے، جو برقرار کیفیت پیدا کی۔ وہی ذہنیت و وہی انسان نا تسلسل کو توڑ سکتا ہے اور نا ہی اسکے وجود سے کبھی حل پھوٹتی ہے، نئے انسان کو پیدا ہونا ہے، وقت کو بدلنے کیلئے۔”

مجمعے سے ہنسی کی آواز آنے لگی اور ایک نوجوان طنزیہ بولنے لگا ” او سنیاسی بابا! کیسے ہوتے ہیں یہ نئے انسان؟ کہاں سے آتے ہیں؟ اس نئے انسان کا جنم کیسے ہوتا ہے؟ کونسی مائیں جنتی ہیں ایسے نئے انسانوں کو؟”
فقیر گھڑی کے گرد گول گول چکر کاٹتے ہوئے بولنے لگا “نئے انسان ماوؐں کی کوکھ سے جنم نہیں لیتے، یہ انسان کے وجود کے اندر پنپتی ہے، وہیں سے تلاش ہوکر دریافت ہوتی ہے، ہم سب میں ایک نیا انسان ہے، جو دریافت ہونے کے منتظر ہے۔ یہ نیا انسان کبھی زرتشت کی طرح دس سال ویرانوں میں بھٹکنے کے بعد ملتا ہے، تو کبھی دیو جانس کلبی کی طرح ترکِ عشرت کرکے ملتا ہے، کبھی بدھا کی طرح خاموش تپسیہ میں ملتا ہے، تو کبھی منڈیلہ کی طرح کال کوٹھڑیوں اور پھر کبھی چی گویرا کی طرح گولیوں کی گونج میں اور کبھی کبھی گھر میں بیٹھے بیٹھے گہری سانس لیکر گریبان میں جھانک کر غور و ارادے میں مل جاتا ہے، ہر کوئی اپنے وجود کے اندر اس نئے انسان کی تلاش مختلف طریقوں سے کرتا ہے، اور ہر کسی کا نیا انسان مختلف ہوتا ہے، لیکن مختلف ہوکر بھی سب ایک جیسے ہوتے ہیں، سب میں دنیا بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔”

پورا مجمع گھڑی کے گرد تیزی سے گول چکر کاٹتے فقیر کو پاگل سمجھ کر اسکی باتوں سے محضوض ہونے کی کوشش میں قریب تر ہوگئے، اسی شور و غل میں، ایک کونے سے زور سے آواز آئی ” اچھا، فقیر بابا! پھر یہ تو بتاوؐ کیسا ہوتا ہے تمہارا یہ نیا انسان؟”
فقیر نے ایک دم سے چکر کاٹنا بند کردیا، اور گھڑی کے اوپر بیٹھ کر منہ آسمان کی طرف کرکے تاروں کو دیکھتے ہوئے بولنے لگا “نیا انسان؟ یہ وہ شخص ہوتا ہے، جس کی پیدائش اسکے موت کے بعد ہوتی ہے، وہ مستقبل کا انسان ہوتا ہے لیکن حال میں جی رہا ہوتا ہے۔ وہ تنہا ہونے سے نہیں ڈرتا، وہ خاموش رہنا اور بولنا دونوں جانتا ہے اور خاموشی اور بولنے دونوں کے وقت کو پہچانتا ہے۔ اسکا شعوری بالیدگی چٹانوں سے سخت ہوتا ہے۔ وہ اپنے پست ترین حالت میں بھی انفرادیت سے افضل ہوتا ہے۔ وہ حق پر ڈٹا رہتا ہے بلاغرض اسکے کہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے یا اسے موت ملے۔ اس میں سوال کرنے کی جرات اور جواب ڈھونڈنے کی جستجو ہوتی ہے۔ اسے مانع سیماوں کا ڈر نہیں ہوتا۔ اسکے اندر کا حساس انسان زندہ ہوتا ہے، نئے موسیقی سے اسے لگن ہوتی ہے، فن کی اسے پہچان ہوتی ہے اور فنکار کی اسے قدر ہوتی ہے۔ اسکے پاس ان سنی کو سننے کیلئے کان ہوتے ہیں اور جو ابھی تک پیش نہیں آیا، وہ دیکھنے کی اس میں بصیرت ہوتی ہے۔ وہ خود میں آزاد ہوتا ہے اور اپنی آزادی کے فیصلوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اپنی آزادی سے محبت کرتا ہے۔ وہ خود سے محبت کرتا ہے اور اپنی عزت کرتا ہے۔ وہ چلے پگڈنڈیوں پر نہیں چلتا، اسکی اپنی خوشیاں ہوتی ہیں، اپنے تہوار، اپنے کام، اور ماتم کے اپنے دن ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ رہنمائی کیلئے تیار ہوتا ہے، اور ضرورت پڑے رہنما کے پیچھے مستقل مزاجی سے چلنا بھی جانتا ہے۔ وہ ترک آرام زندگی گذارتا ہے، وہ خطروں میں جیتا ہے، وہ پہاڑوں کے چوٹیوں پر رہتا ہے، وہ انجان سمندروں میں اپنی کشتیاں اتار دیتا ہے، وہ جنگ کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے کبھی طاقتور سے، کبھی اپنے برابر سے یا پھر اپنے آپ سے۔ وہ جیت جاتا ہے، یا باغی رہتا ہے یا پھر مارا جاتا ہے۔ معاشروں کو، قوموں کو، دنیا کو، تاریخ کو نئے سال نہیں، نئے انسان بدلتے ہیں۔ روک دو اپنے مبارک باد کے پیغام، چھپادو اپنے سال نو کے پٹاخے، کسی سے گلے نہیں ملو، کلینڈر کی طرف مت دیکھو، گھڑیاں اتار دو، نئے سال کا انتظام مت کرو، نئے دن کا انتظار مت کرو، نئے انسان کا انتظار کرو، نئے انسان کی تلاش کرو، تم میں سے جس کو وہ نیا انسان مل جائے، اپنے اندر یا خود سے باہر پھر سارے پٹاخے ایک ساتھ پھوڑ دو، خالی اوراق نکال کر قلم ہاتھ میں پکڑو نئی تاریخ لکھنے کیلئے، گھڑیاں گھورو، بدلتے وقت کا شاھد بنو۔”

فقیر اپنی بات ادھورا چھوڑ کر، آس پاس سے لکڑی کے چھوٹے ٹکڑے اور کاغذ کے پرزے جمع کرنا شروع کردیا، مجمع کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ پاگل کیا کررہا ہے، کسی نے طنزیا پوچھا ” ایسی بات ہے تو پھر کیونکر نہیں بنتا ہر انسان ایک نیا انسان جناب؟”
فقیر نے لکڑیاں اور کاغذ کے پرزے گھڑی کے گرد اور اوپر ڈالتے ہوئے ماچس کی تیلی جلاکر ان میں آگ لگادی اور پھر گول گول آگ کے گرد گھومتے ہوئے جواب دینے لگا ” کیونکہ نیا انسان صرف آزاد انسان ہی بن سکتا ہے اور آزاد انسان ملتے نہیں۔ ہر طرف انسان آزادی کی تلاش میں ہے لیکن انسان سب سے زیادہ خوفزدہ اسی آزادی سے ہے۔ آزادی کا شعور انسان کیلئے باعث دہشت ہے، کیونکہ آزادی اپنے ہمراہ ذمہ داری بھی ساتھ لے آتی ہے۔ مجبوری میں انتخاب نہیں ہوتا جبکہ آزادی اپنے ہمراہ انتخاب کا بار بھی لے آتا ہے۔ اسی آزادی کی اذیت سے نجات حاصل کرنے کیلئے کبھی انسان کہتا ہے کہ اس کائنات کا نظام میکانکی ہے اور ہم حقیر پرزے اسکے آگے بے بس ہیں، کچھ نہیں کرسکتے، کبھی وہ کہتا ہے کہ تمام حوادث خدا تعالیٰ کے تابع ہیں اور انسان کی اوقات کیا، ہم تو مجبور محض ہیں۔ کبھی اپنی بساط عمرانی، معاشی، نفسیاتی عوامل کے سامنے لپیٹ لیتا ہے۔ ان سب میں سے کوئی نا کوئی بہانہ ہم سنتے ہیں، انکا مقصد انسان اپنی آزادی سے دستبردار ہوکر خود کو ماحول و فطرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہتا ہے اور ایسا کرنے کے بدلے وہ سکون پاتا ہے، کیونکہ اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ہر انسان جان بوجھ کر خود کو فریب دیتا ہے۔ ایک آزاد انسان ہی اپنے اندر نئے انسان کو تلاش سکتا ہے، آزادی ہی پہلی شرط ہے، لیکن یہاں آزاد انسان میسر نہیں۔”

جب لکڑیاں، کاغذ اور گھڑی جل کر راکھ ہوگئے، تو فقیر اپنا عصا اٹھا کر بولنے لگا “تم مٹھیاں وقت کی راکھ سے بھرلو، میں چلتا ہوں، وقت کی بند مٹھی کو کھولنے والے کو ڈھونڈنے۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں