سات سال سے لاپتہ بیٹے کو بازیاب کیا جائے – والدہ چنگیز حسنی

208

خضدار سے لاپتہ نوجوان چنگیز محمد حسنی کے والدہ نے وزیر اعظم پاکستان و متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کے چنگیز محمد حسنی کو منظر عام پر لایا جائے۔‏

11جنوری 2014 کو خضدار سے لاپتہ چنگیز محمد حسنی ولد محمد علی کے والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو لاپتہ ہوئے آج 7 سال مکمل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا بیٹے کے بغیر یہ دن بڑی مشکل سے گزارے، بیٹے کو رہا کرکے مجھے ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے۔

یاد رہے بلوچستان سے لاپتہ ہونے افراد کے اہلخانہ سالوں سے اپنے پیاروں کے منتظر ہیں اور کئی لاپتہ افراد کے اہلخانہ کوئٹہ اور کراچی پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپوں میں احتجاج کررہے ہیں۔

اسی طرح ‏5 دسمبر 2012 کو مشن روڑ کوئٹہ سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے گدو خان ولد دلدار خان بگٹی کے بیٹے نے حکومت سے والد کے بازیابی کی اپیل کی ہے۔

لاپتہ گدو خان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ انہوں نے والد کے بازیابی کے لیے تمام آئینی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل رہا ہے حالانکہ ریاست کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو انصاف فراہم کرے۔

بلوچستان سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے کئی افراد سالوں جبری گمشدگی کا شکار ہیں جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین ان جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار ریاستی فورسز و خفیہ اداروں کو ٹہراتے ہیں۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے کوئٹہ اور کراچی پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی ہوئی ہے۔ تنظیم کے مطابق بلوچستان سے اب تک 50 ہزار سے زائد افراد جبری گمشدگی کے شکار ہوئے ہیں جن میں 4 ہزار سے زائد افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

انسانی حقوق کے تنظیموں نے بھی بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ایچ ار سی پی کے جاری کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق لوگوں کو اٹھا کرغا‏ئب کرنے کا سلسہ جاری ہے، متاثرین کے اہلِ خانہ کے بقول، وہ عام طور پر حکام کو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے بارے میں بتانے سے ڈرتے ہیں۔ اس معاملے کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کئی علاقوں جیسے کہ ڈیرہ بگٹی اور آواران میں اب عورتیں بھی ‘ لاپتہ’ ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات نہ تورپورٹ ہورہے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ مرتب ہورہا ہے۔