ریاست کے پختہ دیوار اور ہمارے پختہ حوصلے
تحریر: ملا امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں کوئی بھی قابض اپنا قبضہ جمانے کے لیے اپنے مخالف محکوم قوم کو زیر کرنے کی کوششیں کرتا ہے، وہ ہر طرح کے طریقے و ذرائع استعمال کرتا ہے، وہ زیر قبضہ محکوم قوم کی آواز دبانے کے لیے انھیں دوسرے مسائل میں الجھا دیتا ہے، وہ اپنے معاشی مفادات کے حصول کی خاطر محکوموں کا معاشی قتل عام شروع کر لیتا ہے، وہ لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے زرخرید نوکروں میں تقسیم کرتا ہے وہ معدنیات اور وسائل کی لوٹ مار کرنے کے لئے چند مقامی لوگوں کو ناجائز اختیارات دیتا ہے، انہیں بااختیار بناتا ہے اور بندوق کی زور پر لوگوں کی عزت کو تار تار کرنا شروع کردیتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے کہ اس کے مکروہ عزائم کیخلاف آواز بلند کرنے والے کہیں سامنے نہ آجائیں اور وہ اپنا لوٹ مار اور اپنی حاکمیت جاری رکھے اسطرح وہ اپنے ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رکھتا ہے اپنی تمام چیزیں جو اس کے قبضے کو دوام دینے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکیں وہ انھیں مظلوم قوم پر مسلط کر دیتا ہے۔ مظلوموں کی رسم و رواج و ثقافت کو ختم کرنے کے لئے وہ نت نئے نئے طریقے استعمال کرتا ہے وہ محکوم کی وہ تمام چیزیں جو اسے اور اس کے قوم و آنے والے نسل کے شعور کا ذریعہ بنتے ہیں انہیں چھین لیتا ہے اور اپنے مرضی و مفاد کے مطابق اپ کو کھوکلا شعور دینے کا نعرہ لگاتا ہے تاکہ آپ کی آنکھیں بند ھو جائیں اور بولنےکے لیے محکوم کی زبان بند ہو جائے۔
ان تمام لوگوں کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے جو آپ کی آواز بن کر سامنے آتے ہیں،انہیں مجرم قرار دے کر پابند سلاسل کیا جاتا ہے اور اذیتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ خاموش رہیں، وہ تمام غیر قانونی ذریعوں کے استعمال کوجائز سمجھتا ہے اور اپنا حق سمجھتا ہے محکوم پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں۔ محکوموں کا مال مڈی اور ان کے بچوں کی زندگی گذارنے کی ذمہ داری اٹھانے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔
یہی سب طریقے قابض ریاست پاکستان ہمارے بلوچ قوم پر مسلط کرتا آرہا ہے بلوچ قوم بھی اس کی ظلم و ستم سے محفوظ نہیں رہی ہے لیکن اب بلوچ نوجوانوں نے اپنی آجوئی کی خاطر کمر کس لی ہے اور دشمن کے خلاف کمر بستہ ہو گئے پاکستان نے اپنا قبضہ جمانے کے لیے اور بلوچ قوم کو زیر کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن بلوچ نوجوانوں نے اس کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور مزاحمت کا راستہ اپنایا اس دوران ریاست نے مقامی غداروں کے ذریعے مزاحمت کو روکنے کی کوششیں کی، لیکن وہ جتنا ظلم و ستم کا بازار گرم کر تے رہے بلوچ نوجوانوں کے ہمت و حوصلہ بلند تر ھوتے گئے، قابض ریاست نے مزاحمت کو روکنے کے لیے پورے بلوچستان کو فوجی چھاونیوں میں تبدیل کر دیا، ایک شہر سے دوسرے علاقے تک جانے کے لیے جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم کیے لیکن اس کے باوجود مزاحمت جاری ہے ہر چھوٹے بڑے فوجی مرکز کی دیواروں اور مورچوں کو پختہ کر دیا گیا تاکہ کہیں بلوچ سرمچار ان کے بیرکوں کے اندر نہ گھس سکیں اور اسطرح اپنے قبضے کو برقرار رکھیں انھوں نے اپنے تمام فوجی بیسوں کو جدید ہھتیار اور سی سی کیمروں سے لیس کر دیا ہے تاکہ حوصلہ ہارے ہوئے فوجیوں کو حوصلہ دے سکیں لیکن سامنے بلوچ سرمچار اپنی بے وسائلی کے باوجود ثابت کر رہےہیں کہ آپ کی یہ مورچے جن کے بدولت آپ ہم پر قابض ہو آپ کی یہ پختہ دیواریں ہماری پختہ حوصلوں کے سامنے کچھ نہیں ہیں۔
ہم اپنے پختہ حوصلوں اور پختہ ارادوں سے اپ کے حربوں کو ناکام بنا دیں گے ہم آپ کی بندوقوں کو خاموش کرا دیں گے ہیں ہماری جنگ میں مذید شدت آئیگی، ہم جیتنے کا جذبہ رکھتے ہیں اسی جذبے کے ساتھ غلامی کی زنجیروں کو توڑ دینگے ہمارا یہی حوصلہ ہماری فتح کی نشانی ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں