راشد حسین کی پاکستان منتقلی کے ناقابل تردید دستاویزی شواہد موجود ہیں – لواحقین

350

دو سال سے زائد عرصے سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے والدہ کا ماما قدیر بلوچ ایچ ار سی پی کے اسد بٹ، انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ، بلوچ رائٹس کونسل کے وہاب بلوچ اور ایکٹوسٹ ماہ گنج بلوچ کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

پریس کانفرس ماما قدیر بلوچ نے پڑھ کر سنائی۔ انہوں نے کہا کہ آپ حضرات اس امر سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ملک میں جبری گمشدگیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا ہیں، ہزاروں کی تعداد میں قومی سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے طویل عرصے تک لاپتہ کرنے کے بعد کچھ کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں اور بعض کو مستقل طور پر لاپتہ رکھا جاتا ہے جن کے والدین اور پورا خاندان درد اور کرب کے انتہائی ناقابل بیان حد سے گزر رہی ہوتی ہے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا آج میں آپ کے سامنے ایک 23 سالہ نوجوان راشد حسین بلوچ کا کیس لاکر حاضر ہوا ہوں جو 2017 اگست کے ماہ میں متحدہ عرب امارات کام کرنے ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے ویزے پر چلا گیا اور وہاں پر ملازمت اختیار کی محنت مزدوری کرکے اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بننا چاہتا تھا لیکن شومئی قسمت کہ یہاں سے کوسوں دور سمندر پار سے 26 دسمبر 2018 کو کو متحدہ عرب امارات شارجہ سے انھیں گرفتار کرکے نصف سال یعنی 6 ماہ تک انہیں لاپتہ رکھا گیا اور اس دوران ہمیں نہ ان کے بارے کوئی معلومات فراہم کی گئی اور نہ ہی ان کو عدالتی فورم پر لایا گیا اور نہ ہی ان پر کوئی کیس چارج کیا گیا اور کرتے بھی کیسے کہ وہ نہ اماراتی قانون کے خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھے بلکہ وہ قانونی طور پر امارات میں رہائش پزیر اور محنت مزدوری کرتا تھا۔

انہوں نے کہا چھ ماہ کے طویل عرصے تک لاپتہ رکھنے کے بعد ان کے تمام قانونی حقوق سلب کرکے بغیر سفری دستاویزات کے غیر قانونی طور پر ایک نجی طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا اور یہ کہ منتقلی کے ناقابل تردید دستاویزی اور ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے لاپتہ راشد حسین کے لواحقین کا کہنا تھا ہمیں ان کی پاکستان منتقلی کی خبر اس وقت ہوئی جب ملک کے تقریباً تمام ٹی وی چینلز جن میں جیو نیوز، اے آر وائی نیوز، آج ٹی وی سمیت دیگر نے 3 جولائی 2019 کو دوپہر ایک بجے کے وقت خبر بریک کی کہ راشد حسین نامی ایک شخص خلیجی ریاست سے گرفتار کے بعد پاکستان منتقل کیا گیا ہے (ٹی وی اسکرین سے لی گئی تصاویر آپ کو مہیا کی گئی ہے) جب ہم نے اماراتی امیگریشن سے معلومات حاصل کی تو حکام نے ہمیں ان کا آخری سفری دستاویز مہیا کی جس کے مطابق انہیں 22 جون 2019 کو پاکستان منتقل کیا گیا تھا، (آخری سفری دستاویز کی کاپی صحافی حضرات کو مہیا کی گئی ہے)۔ پہلی بار ہمیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ان کی پاکستان منتقلی کی نہ صرف معلومات ہوئی بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ ان پر دہشت گردی کے انتہائی نوعیت کے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں بلکہ چینی قونصل خانہ حملہ کیس کا سہولیات کار گردانا گیا ہے۔

انہوں نے کہا ملک میں رائج قوانین کے تحت اگر کسی شخص پر غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے یا کرنے کا شبہ ہے تو انہیں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کرکے ان کو شفاف سماعت کے ذریعے اپنی دفاع کا بنیادی حق دیا جاتا ہے اور ان پر لگائے گئے الزامات کو عدلیہ کے سامنے ثابت کرکے انہیں سزا وجزاء کے عمل سے گزارا جاتا ہے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ اگر کسی پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے تو انہیں طویل عرصے تک لاپتہ کرکے ذہنی و جسمانی تشدد سے دوچار کرکے مفلوج کیا جاتا ہے، جوکہ عالمی انسانی اقدار اور ملکی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور ہمیں راشد بلوچ کے زندگی کے حوالے سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

ان کے لواحقین کا کہنا تھا مجموعی طور پر دو سال سے زائد کا عرصہ ہورہا ہے کہ راشد حسین کو لاپتہ رکھا گیا ہے نہ ان کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم کی جارہی ہے اور نہ ہی انہیں عدالتی فورم پر لایا جارہا ہے ہم نے قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم قومی کمیشن میں ان کا کیس درج کروایا اور کمیشن میں پیش ہوئیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی لیکن مایوس کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا یہاں میں بتاتا چلوں کہ کراچی سینٹرل جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کے عدالت نے چینی قونصل خانہ حملہ کیس میں گرفتار دیگر پانچ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران راشد حسین بلوچ کو مفرور قرار دیا جبکہ وہ پہلے سے ہی خفیہ اداروں کی زیر حراست اور تحویل میں ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ دو سال سے زائد عرصے سے گرفتاری کے باوجود بھی عدالت کو گمراہ کیا جارہا ہے، جبکہ عدالت نے بارہا مذکورہ کیس میں مفرور ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کے واضع احکامات کے باوجود زیرِ حراست ملزم کو پیش نہیں کیا جارہا ہے۔

راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا کہ میں بحثیت اس ملک کا شہری یے مطالبہ کرتی ہوں اگر امارت اور پاکستان دونوں ہی راشد کی گرفتاری سے انکاری ہیں تو پاکستان سفیر برائے امارات اور پاکستانی ایمبسی امارات میں وہاں کے اداروں سے اپنے شہری کے گمشدگی کے بارے سوال کریں امارتی حکومت سے راشد حسین کے گمشدگی کی تحقیقات کرائے۔

انکا کہنا تھا ہم کوئی بھی غیر قانونی مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ جو حق بحیثیت شہری کے ملکی آئین ہمیں دیتی ہے ہم اسی آئینی و قانونی حق کا تقاضہ ملک کے اختیار داروں سے کررہے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں عدالت میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت منصفانہ سماعت کے ذریعے اپنی دفاع کا برابر موقع دیا جائے اگر ان پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کیا جاتا ہے تو عدلیہ کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ ہمیں من و عن قبول ہوگا۔

انہوں نے کہا اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ راشد حسین کے جبری گمشدگی کے حوالے سے ہم نے متحدہ عرب امارات میں کمیشن میں کیس دائر کی ہے چونکہ دستاویزی شواہد کے باوجود پاکستانی ادارے راشد حسین کے منتقلی سے انکاری ہے تو متحدہ عرب امارات چاہیے کہ وہ اس حوالے سے جواب دے کہ راشد حسین کہاں ہے۔

راشد حسین کے والدہ نے کہا کہ میں آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان، صدرِ مملکت، وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم قومی کمیشن کے سربراہ اور دیگر ملکی اعلیٰ اختیار داروں سے ہمدردانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ راشد حسین بلوچ کو بازیاب کروانے کیلئے فوری اقدامات کرکے انہیں عدالت میں پیش کروانے کے احکامات جاری کرے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایچ او آر سی پی کے اسد بٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ ملکی اداروں سے یے درخواست کی ہے کہ کسی بھی شہری کو گرفتار کرکے 24 گھنٹوں کے اندر عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن بد قسمتی سے یہاں سیکورٹی ادارے لوگوں کو سالوں تک نامعلوم جیلوں میں قید کرکے رکھتے ہیں اور انہیں عدالتوں میں پیش نہیں کرتے-

اسد بٹ نے مزید کہا سیکورٹی ادارے لاپتہ افراد کو تشدد میں قتل کرنے کے بعد لاشوں کو دفن کرتے ہیں یا تو جنگلوں میں پھینک دیتے ہیں جو ایک غیر انسانی عمل ہے اور ریاست کو ایسے معاملات کی روک تھام و لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرکے فری ٹرائل کا موقع دینا چائیے –