دشمن کے دوست کو پہچانیں
تحریر: جئیند لاشاری
دی بلوچستان پوسٹ
9 – 10 جنوری 2013 کی درمیانی شب یورپین ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تین کردش ایکٹیویسٹس قتل کردئیے گئے۔ دو کے سر میں گولی اور ایک کے پیٹ میں ماری گئی۔ اِن تین میں سے ایک خاتون سکینے کنسیز تھی جو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی بانی ارکان میں سے تھی۔
اس طرح دبئی، متحدہ عرب امارات میں 19 جنوری 2010 کو تکیہ سے فلسطینی تنظیم القاسم بریگیڈ کے بانی رکن محمود المبحوح کو قتل کردیا گیا۔
بلوچ قومی تحریک سے جُڑے افراد کے قتل کا سلسلہ بیرون ممالک میں کئی سالوں سے شروع ہے جبکہ نئی لہر راشد حسین کے اغوا اور پاکستان منتقلی کے بعد دیکھنے کو ملی۔ اِس منتقلی کے بعد متحدہ عرب امارات نے اس پر چپ سادھ لی۔ حالانکہ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق مجرم کا جرم اُس کی رہائش والے ملک میں ثابت کیا جاتا ہے۔ پھر وہ مُلک اُس شخص کو اُس مُلک کے حوالے کرتا ہے۔ جس کا وہ شہری ہوتا ہے۔ اب دونوں ممالک کی خاموشی ان قوانین کو مسلے جانے کو بھی ظاہر کررہی ہے۔
انٹرنیشنل قوانین سے ہٹ کر ہم دیکھیں تو راشد حسین کے بعد یکے بعد دیگر جنرل اسلم، ساجد حسین اور پھر بانک کریمہ کے قتل مبہم ہیں۔ اُنہی قتل شدہ افراد کی طرح جن کو شںبہ ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے اداروں نے قتل کیا ہے۔ یورپین ممالک کو بھی اسی بات کو ادراک ہے کہ مختلف ممالک کے ادارے اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث ہیں لیکن وہ ایک رفیوجی انٹرنیشنل رفیوجی لاز کو مجبوری سمجھتے ہوئے لیتے ہیں تاکہ اس انٹرنیشنل ٹرم کے ساتھ جُڑ کر ہماری شکل خوبصورت نظر آئے۔
اس سب کے باوجود بلوچ قوم کو یہ لازم سمجھنا ہوگا کہ قابض ریاست آج سے گزشتہ ستر سالوں میں ہمیں اسی طرح ٹارگٹ کیوں نا کر سکی؟ ہمارے سنگت اسی ریاست کیخلاف تو دیدہ دلیری سے احتجاج قومی اور عالمی سطح پر کر رہے ہیں جو کہ خوش آئند عمل ہے۔ لیکن یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ دشمن کا دوست اس طرح کی کاروائیوں میں اُس کی مدد تو نہیں کررہا؟ اور کیا یہ کاروائیاں دشمن کے دوست پر حملوں کے بعد شروع نا ہوئیں؟
ہمیں انٹرنیشنل سیاست اور اُس سے جُڑے مفادات کو سمجھ کر اپنا قدم اُٹھانا ہوگا۔ دنیا میں امریکہ اور اُس کی لابی اس وقت چین کے خلاف اور سینکیانگ پر کھلم کھلا بول رہے ہیں۔ ہم اگر آواز ایک کی بجائے دو کے خلاف بُلند کریں گے۔ تو ہماری آواز میں مددگار کئی نئے لوگ آ سکتے ہیں جنکی ضرورت ہمیں ہر وقت ہے۔
قومی مسائل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہے۔ تو پالیسی میکرز کو عوامی پریشر پیدا کرتے اور بناتے وقت وہ قدم اُٹھانے چاہیے جو آنے والے وقتوں کے لیے مفید اور ظاہری اور پوشیدہ دشمنوں کو سامنے لائے۔ اب قوم وہاں نہیں کھڑی جہاں ایک گولی ٹرین پر چھوڑ کر رپورٹ دی جاتی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں