جدوجہد کی علامت بانک کریمہ بلوچ:میر بلوچ

488

 

دنیا کے کسی بھی خطے میں انقلابی تحریک چلی ہو تو اس انقلابی تحریک کو کامیاب کرنے یا انقلاب کو سر کرنے میں اس تحریک سے جڑے قومی فرزندوں کا ایک اہم کردار رہا ہے جنہوں نے مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کی اپنی ذات کو متحرک کر کے قومی سوچ کو ابھار کر تحریک کو کامیاب بنا کر وہ دنیا میں تاریخ کے سنہرے حروف میں یاد کیئے جاتے ہیں جن کی قربانیاں دنیا کی تاریخ کا ہمیشہ حصہ بن جاتی ہے ۔ جن میں چے، کاسترو، بھگت سنگھ، ماوزے تنگ، کم ال سنگ ، ہوچیمن، ماؤ لینن وغیرہ ایسے نام و شخصیات ہیں جنہیں مظلوم اقوام اپنا آئیڈیا لوجی بنا کر ظالم سامراج کے خلاف مزاحمت شروع کرتے ہیں ۔

بلوچ قوم کی تاریخ ایسے بہت سے شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہیں بلوچ قوم کبھی بھول نہیں سکتا اور نسل در نسل ان کی جدوجہد و قربانیاں قومی تحریک میں توانائی بخشتی رہے گی۔

بلوچ قومی تحریک سات دہائیوں سے جاری ہے، جن میں مختلف مراحل سے گزر رہا ہے، اس قومی آزادی کی تحریک میں ایسے بہت سے سر فروشوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کر کے تحریک کو سرخ بنا دیا ہے. آج انہی شہیدوں کے لہو سے ہر آنے والے دن اس ریاست کا خاتمہ نظر آئے گا ۔

آج میں ایک ایسے شیرزال نڈر زالبول عورت کے بارے میں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، شاید میری لکھائی اس کے کردار و ہمت و نظریئے کے لئے ناکافی ہو شاید کوئی لکھاری اپنی ڈائری کھول کر لکھنا شروع کردے، ڈائری کے صفحے ختم ہوجائیں، لیکن اس شیرزال نڈر بلوچ عورت کی ہمت و کرادر پرُ نہیں ہو سکتی ۔

یہ شیرزال عورت بانک کریمہ بلوچ جن کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں روز انقلاب کے نغمے قصّے ہوتے تھے، ایسا گھر جہاں زور سیاست کی بحث و مباحث چل رہے ہوتے تھے، بانک کریمہ نے بچپن میں ہی سب کچھ سیکھ لیا تھا۔

بانک کریمہ بلوچ نے اپنی جدوجہد کا آغاز ایک ایسے معاشرے سے شروع کی جہاں عورت کو سیاست میں جانا یا سیاست کرنا اپنے آپ پر عذاب کے پہاڑ توڑنے کے برابر ہے ۔ بانک کریمہ بلوچ نے سب سے پہلے قدامت پسند قبائل میں جکڑے ہوئے نظام سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور بلوچ خواتین کو قومی غلامی کا احساس دلایا اور بلوچ خواتین کو سیاست کرنے کا شعور دیا، انہیں قومی تحریک کے اندر شمولیت کا احساس دیا۔

بانک کریمہ بلوچ نے اپنی سیاسی زندگی طالب علم تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او آزاد) سے شروع کی۔
بانک کریمہ بلوچ نے اپنی انتھک محنت و لگن کے ساتھ دن رات قومی تحریک کے لئے کام کیا تنظیم کے کاموں کو آگے بڑھایا گیا جس کی وجہ سے وہ 2006 میں تنظیم کی سنٹرل کمیٹی کی عہدے پر فائز ہوئیں، اس وقت تنظیم اندرونی انتشار کا شکار رہا.

2008 کو بی ایس او آزاد کے کونسل سیشن میں بانک کریمہ بلوچ تنظیم کے مرکزی جونیئر وائس صدر کے عہدے پر منتخب ہوئی اور اپنی تنظیمی کاموں کو آگے بڑھاتے ہوئے خاص کر بلوچ خواتین کی تربیت کی انھیں شعوری تعلیم سے آراستہ کیا، انھیں قومی تحریک کے اندر اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا کہ کس طرح دنیا کی تحریکوں میں خواتین نے ذمہ داریاں نبھائیں ہیں ۔ کسی بھی آزادی کی تحریک کو کامیاب بنانے میں خواتین کا ایک اہم کردار رہا ہے ۔

سنہ 2009 بلوچستان میں ریاست نے اپنی بربریت و وحشیانہ کاروائیاں کرتے ہوئے بی ایس او آزاد کے بہت سے کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور بہت سے کارکنوں کو اپنی غیر انسانی تشدد کا نشانہ بناکر زدہ لاشیں پھینکنا شروع کیا تو دوسری جانب بانک کریمہ بلوچ نے اپنی جدوجہد جاری کرتے ہوئے بلوچستان کے کونے کونے گلی کوچوں میں آزادی کا پیغام پہنچاتی رہی۔

بانک کریمہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرے ریلیاں نکالتی رہی، کبھی کوئٹہ کے سرد سڑکوں پر مظاہرین کے سامنے ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بلند کرتی تھی تو کبھی کراچی میں ریلیاں نکالتی رہی۔

2012 میں بی ایس او آزاد نے انیسویں کونسل سیشن منعقد کی اس کونسل میں چیرمین زاھد بلوچ اور سیئنر وائس چیئرپرسن بانک کریمہ منتخب ہوئی اور اس طرح بانک کی ذمہ داریاں بڑھنے لگی اور وہ تنظیم کاری جاری کرتی رہی بہت سے تنظیمی لیٹریچر جاری کیے گئے ممبران کی تربیتی پروگرام کئے گئے۔

میں نے بانک کریمہ بلوچ کو پہلی دفعہ 2013 کو ایک جنرل باڈی اجلاس میں دیکھا اور آج تک مجھے وہ اجلاس یاد آتا ہے جب کسی نے بانک سے کچھ سوالات کئے اور بانک نے ایک تنظیم کی ذمہ دار ہونے کے ناطے خوش مزاجی سے ان کے سوالات کا جواب دیا ۔

جب 2013 میں تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری اور کچھ دوستوں میں اختلافات اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں بہت سے تنظیمی دوست آئین کے خلاف ورزی پر مشتمل ہوجاتے ہیں جن سے زون معطل کیے جاتے ہیں بہت سے دوست تنظیم سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں تنظیم کے خلاف سوشل میڈیا پر غلط بیانات جاری کرتے ہیں تنظیم کے چیئرمین کے خلاف پروپگینڈہ کرتے ہوئے ایک الگ کانسٹی ٹیوشن بناتے ہیں بہت سے تنظیم کے ممبران کو بدذہن کرنے کی کوشش شروع کرنے میں جاتے ہیں تو ان مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے بانک کریمہ رضا جہانگیر اور دوسرے بہت سے کامریڈ تنظیم کو دو ٹکڑوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دن رات لگ جاتے ہیں اس سوچ کو مٹانے کی خاطر پورے بلوچستان سے لے کر کراچی تک کا سفر جاری کرتے رہے۔

تنظیم کو دو ٹکڑوں سے بچانے کے اس سفر میں تنظیم کے مرکزی سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر جسے تربت کیچ میں 14 اگست 2013 کی درمیانی شب کو بی این ایم کے ممبر امداد بجیر کے گھر کو فورسز گھیراؤ کر کے فائرنگ کرتے ہیں جس کے بعض سرزمین کے دو پھول اپنے خون سے بلوچستان میں ایک انقلاب کی لہر کو جنم دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر جاتے ہیں ۔

رضا جہانگیر کی شہادت سے تنظیم کو ایک دھچکا لگ جاتا ہے جس سے تنظیم کو مرکزی سیکریٹری جنرل سے محروم ہو کر ایک کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان مشکل حالات میں بانک کریمہ کی جدوجہد میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ تنظیمی کاموں کو جاری رکھتی رہی ایک طرف ریاست کا کریک ڈاؤن تو دوسری طرف اندرونی انتشار کا سامنا اس نازک حالت سے تنظیم کو ایک اور دھچکا لگ جاتا ہے 14مارچ 2014 کو کوئٹہ میں تنظیم کے چیئرمین زاہد بلوچ کو خفیہ اداروں کے ہلکار بانک کریمہ بلوچ کے سامنے لاپتہ کرتے ہیں تو تنظیم کے چیئرمین کے لاپتہ ہونے کے بعد بانک کے اوپر ایک ایسی ذمہ داری آن پہنچتی ہے جس سے بانک سرفیس سیاست کے میدان میں آجاتی ہے اور چیرمین زاہد بلوچ کی عدم بازیابی کیلئے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ لگاتی ہے، جس میں تنظیم کے سنٹرل کمیٹی کے ممبر کامریڈ لطیف جوہرِ تادم مرگ بھوک ہڑتال میں بیٹھ جاتا ہے۔

اس کیمپ کی ساری ذمہ داری بانک کریمہ بلوچ اٹھاتی ہے دن رات کراچی پریس کلب کے سامنے لگے کیمپ پہ نظر آتی رہی جہاں مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کرتی رہی ریلیاں نکالتی رہی میڈیا کے سامنے زاہد بلوچ کی لاپتہ ہونے کی تمام ثبوت پیش کرتی رہی کہ زاہد بلوچ کو خفیہ ایجنسی نے اغوا کیا ہے۔ یہ بھوک ہڑتالی کیمپ چھیالیس دن قائم رہی۔

سنہ 2015 میں بی ایس او آزاد نے اپنی تاریخ کی بیسویں کونسل سیشن شروع کی جس میں تنظیم کے سابقہ کارگردگی پر نظر ثانی کی گئی اور ایک نئی پالیسی اور نئی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی شکل میں میدان پر نظر آگئی ۔

بانک کریمہ بلوچ نے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کی تربیت کے لئے پروگرامز شروع کیے بلکہ بلوچ خواتین کو بی ایس او آزاد میں شامل کرنے کی بے حد جدوجہد جاری رکھی ۔

بانک کی چیئرپرسن بننے کے بعد تنظیم بلوچ قومی تحریک میں ایک فعال کردار نبھاتے نظر آنے لگی جہاں آئے روز تربیتی پروگرام تو دوسری جانب ممبر شپ بھی کافی شروع ہوئی۔ یہ سب کچھ بانک کی سوچ و نظریہ تھا۔ جس سے ریاست کو بانک کریمہ کے چہرے سے ایک ڈر ہونے لگا ۔ ایک طرف بانک کریمہ کی عملی جدوجہد تو دوسری جانب بی ایس او کی ابھرتی ہوئی طاقت جس سے ریاست کو یہ کبھی منظور نا تھا۔ بانک کو ہمیشہ اپنے سرزمین سے بےپناہ پیار تھا وہ کبھی بھی باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن ایک ایسے فیصلے نے انہیں باہر جانے پر مجبور کیا جو تنظیم کی ایک حکمت عملی تھی کہ بانک کریمہ کا باہر ملک رہنا قوم کے لئے اور تنظیم کے کاموں کو آگے لے جانا ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔ جس سے بانک اور کامریڈ لطیف جوہر بلوچ نےتنظیم کے اس فیصلے پر کینڈا جاکر پناہ لے لی اور وہاں جاکر بلوچ قوم کی نمائندگی کرتی رہی۔ بہت سے وہاں کے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اچھے تعلقات قائم کرتی رہی، عالمی برادری سے بلوچستان میں بلوچ عوام پر پاکستان کی وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتی رہی۔ بی بی سی لندن نے بانک کریمہ بلوچ کو سو با اثر خواتین کے ناموں سے شامل کیا گیا۔

بانک کریمہ کی ماں کہتی تھی کہ میں جب بھی بانک سے ان کی شادی کی بات کرتی تو وہ اکثر کہتی کہ مجھے شادی کر کے گھر میں قیدی نہیں بنا ہے وہ اپنی زندگی کو اسی وقت قربان کرچکی تھی جب ریاست نے انہیں ختم کرنے کی بھاگ دوڑ شروع کی بہت سے بانک پر جھوٹے مقدمات قائم کیئے گئے۔ بہت بار گھر پر چھاپہ مارا گیا گھر والوں کو ڈرا دھمکا کر کہا کہ کریمہ کو سمجھاؤ وہ اپنا مقصد چھوڑ کر خود کو ہمارے حوالے کردے لیکن بانک کی سوچ و مقصد ایک ایسا ملک حاصل کرنا تھا جہاں انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، جہاں برابری ہو جہاں انسان ایک پرسکون زندگی گذار سکے۔

ریاست کو بانک و ان کے کردار سے بہت خوف تھا ، اسی لئے ریاست نے بانک کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے بانک کریمہ کو شہید کردیا لیکن ریاست کو یہ معلوم نہیں کہ کریمہ کو شہید کرنے سے ان کا نظریہ ختم نہیں ہوگا۔ بانک ایک سوچ تھی اس سوچ کو آج ریاست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ان کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک کو ایک نئی روح بخش دی ہے۔ آج بانک کریمہ بلوچ ہر بلوچ خاتون کی Ideology بن گئی ہیں آج ہر بلوچ خود کو کریمہ سمجھ کر ریاست کے جبر کے خاتمے کیلئے تیار ہے ۔

بانک کی شہادت بلوچ قومی تحریک کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے لیکن انہی کی قربانیوں کی وجہ سے ہماری آنے والے نسلیں ایک طاقت کے ساتھ میدان جنگ میں خود بڑھیں گے ۔

آج بانک ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی سوچ و نظریہ ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔ آج ہم سب کو بانک کی سوچ و نظریئے کو زندہ رکھنا ہے تو ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا ایک خوشحال بلوچستان جو ہمارے شہیدوں کا خواب تھا آج ہمیں وہ خواب پورا کرنا ہوگا ۔

بانک کا ایک جملہ” مجھے بلوچستان سے محبت ہے یہ غلام ہے کہ آزاد، یہ بات میری محبت کے راستے میں حائل نہیں، ہاں مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ غلامی کی تاریکیوں سے آزاد کرانا میری ذمہ داری ہے اس خاک سے مجھے محبت آزادی یا غلامی دونوں صورتوں میں ہونی چاہیئے اگر یہ غلام ہے تو میری کمزوری ہے کہ میں اس کی آزادی کو محفوظ نہیں رکھ سکا، مگر میں یہ شعور ضرور رکھتی ہوں کہ اس کی آزادی کے لئے جنگ لڑنا میری پہلی اور آخری ذمہ داری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں