بلوچ متحدہ محاذ
تحریر: ڈاکٹر اصغر دشتی
دی بلوچستان پوسٹ
29جنوری 2021ء کو واجہ یوسف مستی خان کے گھر پر کراچی کے مختلف بلوچ علاقوں کے وفود نے ایک اہم اجلاس میں شرکت کی۔ گوکہ اس اجلاس میں کراچی کے تمام بلوچ آبادیوں کے نمائندہ وفود شامل نہیں تھے تاہم اس اجلاس کا مرکزی نقطہ کراچی کے بلوچوں کی حالتِ زار کا تجزیہ اور اس حوالہ سے کوئی لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اجلاس میں بلوچوں کے مسائل کے حوالے سے مختلف نقطہ نگاہ اور آراء سامنے آئے۔ تاہم شرکائے اجلاس، اس بات پر متفق نظر آئے کہ کراچی کے بلوچ سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی طور پر پسماندگی کا شکار ہیں اور حقیقت بھی کچھ اسی طرح ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ بلوچ متحدہ محاذ کا تصور برمش یکجہتی کمیٹی اور بعدازاں بلوچ یکجہتی کمیٹی (جوکہ برمش یکجہتی کمیٹی کی توسیع شدہ شکل ہے) کی کراچی میں ہونے والی سرگرمیوں سے سامنے آیا۔ (میں اس بات کو کراچی میں ہونے والی سرگرمیوں تک محدود کررہا ہوں)۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جس طرح دو مختلف ایشوز پر کراچی کے بلوچوں کو ہزاروں کی تعداد میں منظم کیا۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ کمیٹی کو جاتا ہے۔ کمیٹی نے جس طرح بلوچ مسائل پر کراچی کے اندر ردعمل دیا وہ قابلِ تحسین ہے۔
ان مظاہروں نے کراچی کے بلوچوں میں ایک حوصلہ و ایک امید پیدا کی جوکہ سالہا سال کی سیاسی یتیمی، معاشی جبر، بے روزگاری اور تعلیمی عدم مساوات کا شکار تھے۔ کراچی کے بلوچ کراچی میں جس کسمپرسی کا شکار تھے مذکورہ بالا مظاہروں نے ان میں ایک ولولہ پیدا کیا۔ اس عمومی صورتحال میں واجہ یوسف مستی خان نے کراچی کے بلوچوں کی مستقل سیاسی اور تنظیمی بنیادوں پر اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہونے کی بات کی۔
میری ذاتی رائے میں کراچی کے بلوچوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی اب تک محدودیت یا ایک مخصوص دائرہ کار میں بند رہی ہے۔ (گوکہ آگے صورتحال تبدیل ہوجائے) کمیٹی کا سیاسی پروگرام یا اس کا تنظیمی اسٹرکچر بھی غیر واضح ہے۔ اب تک کے حالات و واقعات سے مشاہدہ میں آیا ہے کہ کمیٹی نے مخصوص واقعات پر ردعمل کی سیاست (Reactionary Politics) کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے کمیٹی کی کارکردگی یک رخی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک محتاظ اندازےکے مطابق کراچی میں 30سے 40لاکھ بلوچوں کی آبادی پائی جاتی ہے لیکن آبادی کے تناسب کے لحاظ سے شہر میں بلوچوں کی کوئی خاص نمائندگی نہیں۔ بلوچ کراچی کے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں ایم پی اے اور ایم این اے بھی شامل ہیں تاہم وہ سب ”بلوچ نمائندگی“ کے بجائے اپنی سیاسی جماعتوں کی انتخابی سیاست تک محدود، لائسنس، ٹھیکہ، پلاٹ، پرمٹ کا حصول اور اپنے گروہی مفادات کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ کراچی کے بلوچوں پر جب بھی برا وقت آیا یا ان کے حقوق چھینے گئے تو کراچی کے بلوچوں نے خود کو لاچار، بے بس اور تنہا پایا۔
کراچی میں بلوچوں کے لیے سروس سیکٹر کی کمیابی، بلوچوں کی ان کی زمینوں سے بے دخلی، زمینوں، گوٹھوں پر قبضہ، کراچی کے بلوچوں کی تعلیمی پسماندگی، بلوچ علاقوں میں منشیات کا پھیلتا ہوا کاروبار، جرائم، بدامنی اور دیگر سماجی برائیوں، بلوچ شناخت کی بنیاد پر تعصب آمیز رویوں، بے روزگاری، سماجی پسماندگی، غربت، صحت، انصاف جیسے مسائل، شہری سہولیت کی عدم دستیابی، معاشی مواقعوں سے محرومی، بلوچ مضافاتی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے تعلیمی اداروں کا نہ ہونا، کراچی کے بلوچ فنکاروں کی کسمپرسی، ادیبوں و گلوکاروں کی عدم سرپرستی جیسے ایشوز پر تمام سیاسی جماعتیں بشمول بلوچ سیاسی جماعتیں / بلوچستان کی سیاسی جماعتیں لاتعلق، بے پرواہ اور خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ لہٰذا کراچی کے بلوچوں کی حالت زار کے حوالہ سے متحدہ بلوچ محاذ کا قیام وقت کی اہم سیاسی ضرورت ہے۔
کراچی کے بلوچوں کو ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو نہ صرف مقامی ہو بلکہ کثیر الجہتی اور ہمہ گیر ہو جس میں کراچی کے بلوچوں کو درپیش مسائل کے تمام پہلوؤں پر جامع انداز میں بات ہو۔ جو جذباتیت سے ہٹ کر عقلی اور عصری تقاضوں کے تحت ہو۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان بھر کے بلوچ کراچی کے تناظر میں ”بلوچ متحدہ محاذ“ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ بلوچ متحدہ محاذ کا تصور یوٹوپیا میں ہی آئے گا لیکن اس یوٹوپیا کی شدید ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے اور اسے بہرحال حاصل بھی کرنا چاہئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں