برزکوہی کے نام
تحریر: اِستال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سب سے پہلے تو میرے قلم اور دل سے یہ الفاظ آپ کے لیے نکل رہے ہیں کہ آپ جو بھی ہیں جہاں بھی ہیں،سدا سلامت اور حفظ و امان میں رہیں کیونکہ اس عظیم مگر غلام قوم کو آپکی اور آپکے قلم کی اشد ضرورت ہے۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جنگ بہت کچھ چھینتا بھی ہے اور اس کے بدلے بہت کچھ دیتا بھی ہے۔ قومی آزادی، شناخت و بقاء کی اس عظیم جنگ نے ہزاروں بلوچ فرزندوں کی جان بھی لی ہے اور ہزاروں دانشوروں، ادیبوں، لکھاریوں، رہبروں اور جنگجوؤں کی صورت میں اور پیدا بھی کی ہے اور کر رہی ہے۔
چونکہ فی الحال غلامی ہے، اس لیے اتنے عظیم قلمکار اور دانشور دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔ اگر کچھ ہیں بھی تو ان کی قلم اور الفاظ میں وہ جان اور اثر نہیں جو آپکے اندا ِز فکر و بیان میں ہے۔ لکھنا یا جذبات، تجربات و احساسات اور اپنے علم کو لفظی شکل دینا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ایک ہنر ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے ایک آپ پر آس جمائے بیٹھے ہیں کہ آپ اپنی قلم کی رو سے اس غلام قوم کی رہنمائی اسی طرح کرتے رہینگے۔
آپکے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری جنگ، جہد کاروں، ادیبوں، لکھاریوں، دانشوروں اور بلوچ عوام کےلیے شمع اور روشنی کی مانند ہیں۔ ایک تعمیری تنقید ہیں۔آپکے سنہرے اور پر اثر تحریر ہماری جنگ، عوام، جہدکاروں اور رہبروں کی کمزوریوں و کوتاہیوں کے لیے ایک جال اور سمندر کے لہروں کی طرح ہیں جو کہ ان خرابیوں اور کوتاہیوں کو دور نکال باہر پھینک دیتی ہیں۔
اس تاریخ ساز زمانہ جنگ میں بلوچ دانشوروں اور لکھاریوں کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے حالانکہ انکی کمی یاقحط تو نہیں ہے، مگر پتہ نہیں وہ کونسی وجوہات ہیں جنکی بنا پر ہمارے دانشوروں کے قلم خشک اور خاموش ہیں۔لیکن آپ خدارا اپنے قلم کو خشک اور خاموش ہونے نہ دیں۔ جب تک آپ زندہ ہیں اپنے قلم کو بھی زندہ رکھیں،اس آفت زدہ غلام قوم کے لیے،اس تاریخی اور فیصلہ کن جنگ کے لیے۔اگر ہوسکے تو آپ اس جنگ اور قوم کی آواز بنیں،اپنی ذہانت کو صدقہ جاریہ سمجھ کر اس غلام و محکوم قوم کے لیے پیش کرتے رہیں۔
بہادر اور بلوچ دوست برزکوہی، آپ ہمارےلیےفینن، سارتر، گرامچی، گوگی اور والٹئیر سے بالکل کم نہیں ہیں۔ جس طرح ان عظیم شخصیتوں اور دانشوروں نے اپنی قوم کی رہنمائی اپنی قلم سے کی اور قوم کو آگاہی شعور و بیداری اور آزادی دلانے میں اپنا منفرد کردار ادا کیا اور تاریخ میں امر رہے۔اسی طرح ہمیں بھی آپکی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے امید کی کرن اور ہماری آواز بنتے رہیں گے۔
قومی آزادی کی جنگوں کے دوران دانشوروں کے کردار کے بارے میں گرامچی اور فینن نے دنیا کو بتا دیا تھا کہ”قلم کی طاقت سے شعور و بیداری اور قومی آزادی کس حد تک ممکن ہے اور کس حد تک پھیلائی جا سکتی ہے اور قلم کیسے بندوق،قوم اور جنگ کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے”۔ ہمیں بندوق کے ساتھ ساتھ قلم کی روشنی کی بھی ضرورت ہے جو کہ آپ ہمیں دے رہے ہیں اور دے سکتے ہیں ٹھیک اسی طرح جسطرح سے گرامچی اور فینن نے غلام اور محکوم عوام و اقوام کا ساتھ دیتے ہوئے دیا تھا۔
بلوچ، بلوچی اور بلوچستان کے ساتھ آپ بھی سدا سلامت رہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں