امید ہے نیا سال لاپتہ افراد کے بازیابی کا سال ہوگا – مہلب دین محمد

401

لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی مہلب دین محمد بلوچ نے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کے موقع پر ایک بیان میں کہا ہے کہ میں گذشتہ 12 سالوں سے اپنے والد کے منتظر ہوں۔ میرے والد پیشہ کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہے، اورناچ اسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

مہلب کے والد ڈاکٹر دین محمد کو 28 جون 2009 کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے اورناچ مسلح افراد نے لاپتہ کیا تھا۔ لواحقین کے مطابق انہیں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے لاپتہ کیا ہے۔

مہلب دین نے کہا کہ 2009 سے لے کر 2020 تک ہم اپنے والد کی محفوظ بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں اور اب تک میرے والد کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ انہوں نے کہا کہ 2021 کے پہلے دن لوگ اکھٹا ہو کر نئے سال کا جشن منا رہے تھیں لیکن ہم بلوچ جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے نئے سال کا پہلا دن پریس کلبوں کے سامنے گزارا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پچھلے 12 سال مصائب میں گزرے ہیں اور ہر لمحہ اپنے والد کا انتظار کرتے رہے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ اس سال تمام لاپتہ خاندانوں کو اپنے پیاروں کے پاکستانی ٹارچر سیلوں سے محفوظ رہائی کی خوشخبری ملے گی۔

مہلب نے کہا ہے کہ اگر میرے والد نے کوئی قانون توڑا ہے یا ان پر کوئی مقدمہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کے اغواء کے بعد ہمارا گھر جہنم بن گیا ہے اور میری دادی آخری سانس تک ان کا انتظار کر رہی تھی اور وہ میرے والد کو پکار رہی تھی جبکہ وہ 24 ستمبر 2013 کو انتقال کر گئی۔

مہلب دین نے کہا کہ میں تمام انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ہماری مدد کریں اور ہمارے والد کو واپس لائیں۔ ہم دن، ہفتوں اور سالوں کو گن رہے ہیں۔ ہم عید کے تہوار، نئے سال اور دیگر تقریبات منانے سے قاصر ہیں۔

مہلب نے کہا کہ ہمارے درد کو کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کتنا گہرا ہے۔ ہماری پوری زندگی برباد ہوچکی ہے۔ میرا پورا خاندان نفسیاتی مریض بن گیا ہے۔

مہلب نے کہا کہ مجھے اور میری بہن سمی کو یہ معلوم نہیں تھی کہ لوگ غائب ہوجائیں گے لیکن ایک دن میرے والد غائب ہوگئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر دین محمد کو پاکستانی ریاستی فورسز نے اغوا کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پاکستانی فوج میرے والد کو کیوں لے گئے، کیا انہیں آرمی کیمپ میں ڈاکٹر کی ضرورت ہے؟