کریمہ کا قتل آئی ایس آئی کا پرانا کھیل ہے – سمیر جیئند بلوچ

642

ٍکریمہ کا قتل آئی ایس آئی کا پرانا کھیل ہے 

تحریر : سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان ایک ایسا بدقسمت ریاست ہے، جو اپنے کالے کرتوت چھپانے کیلے ہمیشہ منفی قدم اٹھاتا رہتاہے۔ اگر اس کی نیت میں نہتے مظلوم بلوچ کی نسل کشی کیلے فوجی آپریشن کرنے کا نیا منصوبہ ہو تو اس سے دوتین دن قبل بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں اپنے مارے جانے والے فوجی اہلکاروں کی تصاویر چھپوا کر فوجیوں کی ہلاکتیں کنفرم کردیتاہے تاکہ فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی جائے۔حالانکہ دیکھا جائے بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی اہلکار بلوچ سرمچاروں کے غضب کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں،مگر مجال ہے وہ کسی ایک کاروائی بارے لب کشائی کرے۔

دوسری مکاری اس کی یہ ہے کہ جب اس کے کسی غلط اقدام کے خلاف بلوچ متحد ہوکر سراپا احتجاج بن کر ہر فورم پر اس کے استحصال اور ظالمانہ اقدام کی مذمت کرنا شروع کریں، تو وہ فوراََ ایک ایسا منافقانہ کام کردیتا ہے کہ لوگوں کی توجہ اس مسئلہ سے ہٹ کر نئے مسئلہ پر مرکوز ہوجاتاہے۔ ایسے گھناؤنے حرکتوں سے وہ اپنے منفی مقاصد حاصل کرنے میں وقتی کامیاب ہوجاتاہے، یعنی لوگوں کا توجہ اس مقصد سے فوری ہٹ جاتاہے۔ پاکستان اور اس کے فوج کے حالیہ گھناؤنے حرکات کے ثبوت ہمیں ان واضح اقدامات سے مل جاتاہے ۔

جب فوج نے چین کی مشاورت سے گوادر کو باڑ لگاکر مقامی لوگوں کو بے دخل کرنے کا قدم اٹھایا تو نہ صرف آزادی پسند سیاسی اور مسلح تنظیمیں اس اقدام کی مخالفت کرنے لگے بلکہ وہ پارلیمانی پرست پارٹیاں تنظیمیں اور حکومت کے کاسہ لیس لوگ بھی اس اقدام کی شدید مخالفت کرنے لگے کیونکہ انہیں انکے ہی ورکروں نے مجبور کردیا کہ وہ باڑ کی مخالفت اس طرح کریں جس طرح دوسرے آزادی پسند پارٹیاں اور تنظیمیں کر رہی ہیں۔اگر نہیں تو اپنے ہی ورکروں کے غضب کا نشانہ بننے کیلے تیار ہوں۔ یقیناََ جب انھوں نے اپنے آقاء پاکستان کو اپنے مجبوریوں بارے خفیہ آگاہ طورپر آ گا ہ کیا ہوگا تو انکے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگا ہوگا۔

اس کے بعد فوج نے عام لوگوں کا توجہ ہٹانے کیلے دو منصوبوں پر کام شروع کردیئے۔(ویسے منفی کام میں دیر نہیں لگتی)۔ایک بیرونی ممالک میں رہنے والے ایک ایسے رہنماء کو راستے سے ہٹانا جن کے ہلاکت پر لوگ گوادر کے باڑ کے علاوہ اس دوران ہونے والے بڑی فوجی آپریشن میں مرنے والے اپنے شہدا کوبھی بھول جائیں۔ آپ کو یاد ہوگا بانکہ کریمہ کے شہادت سے دودن قبل میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ پاکستان کی فوج بلوچستان کے نؤ اضلاع میں بیک وقت اکھٹے ہورہی ہے۔یعنی ضلع کیچ کے علاقہ کولواہ،زامران،بلیدہ،،ضلع پنجگور کے علاقہ ،گچک،گوارگو،کیلکور،ضلع واشک کے علاقہ راغے پشتکو،ٹوبہ سکن،ضلع آواران کے علاقہ،گیشکور،مالار،دراسکی،سولیر اور گردونواح کے علاقوں، ضلع قلات کے علاقہ دشت گوران،نیمرغ،پارود شور،ضلع نوشکی کے علاقہ،منجرو،ریکو،انجیری سمیت متعدد علاقہ شامل تھے۔ان کے علاوہ خاران کے علاقہ لجے،سمیت باز قصبے اور دیہاتوں کے علاوہ پہاڑی علاقے بھی شامل تھے۔

ان خبروں کے ٹھیک دوسرے دن کینیڈا سے دل دھلانے والی خبر سوشل میڈیا کا زینت بنی کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابقہ چیئرپرسن اور موجودہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما کریمہ بلوچ کی لاش ایک جزیرے سے ملی ہے۔جنھیں ایک دن پہلے لاپتہ کیا گیا تھا۔

کینیڈا ٹورنٹو میں لاپتہ ہونے والی رہنما کے لاپتہ ہونے اور پاکستان میں ہزاروں لاپتہ ہونے والے بلوچوں میں صرف ایک راز قدرے مختلف رہا۔ یہ کہ بیرونی ممالک لاپتہ کرنے والے افراد کو نہ گھر میں گھس کر ان کے خاندان والوں کے سامنے نہیں بلکہ بھرے بازار سے لوگوں کے سامنے اٹھا یاجاتا ہے ۔یعنی وہاں یہ کام اتنی صفائی سے کی جاتی ہے کہ کسی پرندے کو بھی ہوا نہ لگنے پائے۔مگر بلوچستان میں سرعام بھرے بازار،دکان،ٹرانسپورٹ،سکول کالج،اور گھر سے ہی خاندان والوں کے سامنے متعلقہ شخص گھسیٹ گھسیٹ کر لاپتہ کیا جاتاہے۔بانک کے شہادت کی خبر کے بعد ایک حقیقت تھا کہ لوگوں کا توجہ گوادر کے باڑ سے بھی عارضی طور پر ہٹ گیا۔ اور اس فوجی بربرزم سے جو انھوں نے اس دوران شروع کی۔

جب بانکہ کریمہ کے ہلاکت کی خبر پورے دنیا خصوصاَََبلوچستان میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی تولوگ ان کے موت پر سراپا احتجاج بنے جو پاکستان کے تصور میں نہیں تھا۔احتجاجیں دیکھ کر انکے ہوش اڑگئے۔ آئی ایس آئی نے فوراََ بانک کے ہلاکت کے ردعمل میں ہونے والے احتجاجوں کو سرد کرنے اور توجہ ہٹانے کیلے مختلف نو اضلاع میں ہونے والے فوجی آپریشنز،درندگی کی خبریں چلائی اور ان اضلاع میں زمینی فوج اورجنگی ہیلی کاپٹروں کے زریعے ھلاک ہونے والے 18 نہتے بلوچوں کو مارنے کا دعوی ٰ بڑے بے شرمی سے کردیا کہ یہ تمام مختلف اضلاع میں مارے گئے ہیں جن کا تعلق مختلف بلوچ مسلح تنظیموں سے ہے۔

حالانکہ آئی ایس پی آر کے درندگی کے اس اعلان سے قبل ہی ضلع پنجگور کیلکور سے اطلاع پہنچ گیاکہ حاجی پیر نامی زیارت پر فوج کی جنگی ہیلی کاپٹروں نے درگاہ پر موجود لوگوں پر شیلنگ کرکے ایک خاتون سمیت دس افراد شہید کردیئے ہیں۔ جبکہ کیلکور کے مختلف ندی نالوں میں تین خانہ بدوش بھی مارے گئے ہیں۔اس کے علاوہ بیسیوں افراد اس درگاہ سے اور سولہ افراد کولواہ کے مختلف علاقوں سے لاپتہ کئے گئے ہیں۔

کیچ دشت سے بھی چار نہتے افراد کی شہادت کی اطلاع آئی اور گچک سے ایک بلوچ سرمچار کی شہادت کی اطلاع پہنچی۔ان واقعات کے تسلسل اور کڑیاں دیکھیں تو ایک دوسرے سے ملتے جارہے ہیں۔ پاکستان اسکی فوج اور ایجنسیاں کس منصوبے کے تحت بلوچستان سمیت دنیا کے لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں صفائی سے مکمل کردی ہیں۔
یہ ذمہ داری بین الاقوامی عالمی اداروں سمیت بلوچستان کے سیاسی سماجی تنظیموں اور مظلوم اقوام،بلوچ ،سندھی،پشتون،مہاجر،اور اقلیتی برادری ہندو،کرسچن،شیعہ کی بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے خون خوار کرپٹ فوج اور ایجنسیوں کی بے نقاب کرنے کیلے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوط کریں۔ نہ اپنی توجہ گوادر کے باڑسے ہٹائیں،نہ بانک کریمہ سمیت فوجی آپریشنوں میں نہتے ان اٹھارہ بلوچوں کے شہادت سے، جنھیں پاکستان اور چین کی مشترکہ فوجی گن شپ ہیلی کاپٹروں اور زمینی فوج نے شہید کرکے بڑی بے شرمی سے اعلان کردیا ہے کہ یہ دہشت گرد تھے۔

اگر عالمی انسانی حقوق کے ادارے اب بھی چاہیں تو پنجگور کیلکور میں واقع اس درگاہ پر تشریف لائیں جہاں ایک ساتھ 13افراد کی خون خشک نہیں ہوئے (فوج اب بھی درگاہ میں مرکزی کیمپ قائم کرکے بیٹھاہواہے)نہ دشت میں چار نہتے عوام اور کچک میں بلوچ سرمچار کے خون خشک ہوئے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں