گچک سے خواتین کی جبری گمشدگی پر قوم متحد ہوکر آواز اٹھائے – ماما قدیر

304

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی پاکستانی ریاست کا بلوچستان سے متعلق پالیسیوں کا اظہار ہے۔ بلوچ قوم خواتین کی جبری گمشدگی پر متحد ہوکر آواز اٹھائے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے بیان میں کیا۔

ماما قدیر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کوئی شخص محفوظ نہیں جس کا ثبوت گذشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسروں اور آج پنجگور کے علاقے گچک سے خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے خواتین کو فوجی آپریشنوں میں شہید کرنے سمیت انہیں لاپتہ کرچکے ہیں۔ اس سے قبل آواران سے بھی خواتین کو لاپتہ کرنے کے بعد دہشتگردی کا الزام لگاکر منظر عام پر لایا گیا۔ جبکہ ہرنائی کے علاقے نشپا میں دوران آپریشن پاکستانی فورسز کے ہاتھوں نوجوان لڑکی کے شہادت جیسے واقعات بھی ریکارڈ پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی جبری گمشدگی انتہائی قابل مذمت ہے اور اس کیخلاف بھر پور آواز اٹھائینگے۔

خیال رہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 4150 دن مکمل ہوگئے۔ جہاں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

قبل ازیں ماما قدیر بلوچ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ عمرے کیلئے کاغذات جمع کرنے کی غرض سے جب وہ پاسپورٹ آفس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ میرا نام کیوں ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز لاپتہ افراد کیلئے ملکی قوانین کے تحت انصاف چاہتی ہے، نہ ہم مسلح ہے اور نہ ہی ہم نے کوئی جرم کیا ہے کہ میرا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔

خیال رہے اس سے قبل بھی دو دفعہ ماما قدیر بلوچ کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا جس کے باعث وہ جنیوا اور امریکہ میں انسانی حقوق کے تنظیموں کے پروگراموں میں شرکت نہیں کرپائے تھے۔