گوادر : قبضہ گیر کی ایک اور چالبازی – حمل مومن

212

گوادر : قبضہ گیر کی ایک اور چالبازی

 تحریر : حمل مومن

دی بلوچستان پوسٹ 

ترقی و خوشحالی کے جانب ایک اور قدم ۔۔۔ گہما گہمی ، شور شرابہ ، ہر طرف ترقی کا نعرہ گونج رہا ہے۔ سرکاری اسٹیٹمنٹ ، اخباری بیانات میں ، سوشل میڈیا پر ، بازاروں میں ، ہوٹلوں پر ، کالموں میں ، مکالمہ نگار ، تجزیہ نگار ، گوادر کے ترقی پر ہر کوئی اپنے جیسا ، اپنی سوچ کی حد تک اظہارِ خیال کررہا ہے، بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔

گوادر کو سیل کرنے کا مقصد بلوچ کو ترقی ہی تو دینا ہے ، ان کی حفاظت ہی تو کرنی ہے، بھئی کس کی حفاظت کرنی ہے ؟ پنجابی و چینیوں کی؟ بلوچ کی ؟

گوادر کے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں ، گوادر میں پاکستانی فوج کے کاسہ لیس سیاستدانوں ، سرمایہ دار لٹیروں کی وجہ سے جو مسائل ہیں ۔ ان کا گنتی کرنا بھی اب کوئی گوارہ نہیں کرتا ، پانی کی عدم دستیابی ” مید ” کو سمندر جانے نہیں دینا ، بجلی کا نہ ہونا ، بیروزگاری ، نشہ و غنڈہ گردی پھیلانا ،گوادر کے باشندوں کو تنگ کرنا ، مقامی آبادی کے گھروں کا بلڈوز کرنا، بات بات پر شناخت پوچھنا ، سیکیورٹی کے نام پر تشدّد کرنا ، فوجی نفری کو حد سے زیادہ کرنا ، دو دو قدم پر فوج کا چوکی لگانا ، کتابوں پر پابندی لگانا ، ظلم و جبر ، دہشت گردی ، لوٹ کھسوٹ ، وغیرہ وغیرہ

یہ سب پاکستانی قبضہ گیریت کے اشکال ہیں لیکن پاکستان پھر بھی ترقی کا ڈھونگ رچا رہا ہے ۔گوادر میں مچھیروں کو پورٹ تک جانے نہیں دینا ، کونسی ترقی ہے ؟ کہاں کی تحفظ ہے ؟ ، کس کی تحفظ ہے ؟ گوادر کے اصل باشندوں کو اس کے اپنے سمندر تک جانے نہیں دینا ، ترقی نہیں قبضہ گیریت ہے ۔ اگر ہم پھر بھی اپنے حق کے لئے آواز بلند کریں تو دہشت گرد ہیں ؟

حال ہی میں کہدہ بابر نے گوادر پریس کلب کے پروگرام حال احوال سے خطاب کے دوران گوادر کو سیل کرنے کے بارے میں کہا کہ “معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے فول پروف سیکورٹی ناگریز ہے ، گوادر کو سیل کرنے کا سب سے بڑا فائدہ شہریوں کا ہے ، اور وہ فائدہ یہ ہے کہ گوادر کے شہریوں کو چیک پوسٹوں کے مراحل سے گزرنے سے چھٹکارہ ملے گا “

اب بات یہاں تک پہنچ گیا ، لگتا ہے کہدہ بابر احمقوں کے جنّت میں رہ رہا ہے ، پہلے ہم نے گوادر میں پانی کا بحران سنا تھا ۔ لیکن کچھ عرصہ ہورہا ہے، جس میں نام نہاد لیڈروں کے پاس منطق و دلائل کے بھی بحران ہیں۔

فول پروف سیکورٹی کی ضرورت پنجابی و چینیوں کو ہے ، کیونکہ وہ نہ یہاں کے باشندے ہیں اور نہ ہی اس زمین کے اصلی وارث ۔ معاشی سرگرمی گوادر کے عوام کے لئے نہیں ہورہے ہیں ، یہ محض ریاست پاکستان کے لئے منافع ہیں ۔بحثیت ایک عام بلوچ ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ گوادر میں جو معاشی سرگرمیاں ہورہے ہیں ۔۔۔ کس کے لئے ہورہے ہیں؟

آیا گوادر عوام کے لئے یا پنجابستان کے لئے ؟
یہ فول پروف سیکورٹی کس کو دے رہے ہیں؟
گوادر عوام کو یا پنجابی و چینیوں کو ؟

یہ بات سب جانتے ہیں کہ گوادر کے باشندوں کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اصل خطرہ تو پنجابی کو ہے ، لیکن یہ بھی غور کرنا ہے کہ پنجابی کس سے ڈر رہا ہے ؟ بلوچ سے یا کسی دوسرے قوم سے ؟ ظاہر ہے بلوچ سے ۔۔۔ وہ جانتا ہے کہ بلوچ میں ایسے بھی لوگ ہیں، جو قبضہ گیریت و غلامی کبھی قبول نہیں کرسکتے ہیں اس سے اسے نقصان ہوسکتا ہے تو ان لوگوں کے وجہ سے سارے گوادر کو سیل کرنے کا بندوبست میں ہے ۔

سی پیک کے نام پر بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کرنا پاکستان کا سب سے اہم ایجنڈا ہے اور اس پر عمل پیرا ہے ۔

پہلے جب گوادر بندرگاہ کا قیام ہورہا تھا تو یہی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے ” میدوں “کے لئے آسانی ہوگا ، ان کے معاش میں اضافہ ہوگا جس سے وہ اپنی کفالت اچھے طریقے سے کریں گے ۔ لیکن آج انہیں بندرگاہ کے قریب بھی جانے نہیں دے رہے ہیں۔ گوادر میں علم و آگاہی کے شمع جلیں گے، ہر گھر سے تعلیم یافتہ نوجوان نکلیں گے ، اب ” مید ” کے بچّے اور بچّیاں بھی پڑھائی کرسکیں گے ، گوادر کے اصلی حقدار ہی گوادر پر راج کریں گے لیکن بات جب تعلیم کی آئی تو گوادر کے نام پر اسکالرشپ پنجابیوں کے دئیے گئے ، انہیں بس تسلی و دلاسہ کے سوا کچھ نہیں ملا ۔

اصل میں گوادر ترقی نہیں ۔۔ غلامی کی ایک اور منزل طے کررہی ہے ، ہم لاشعوریت کے بند کمرے میں بیٹھ کر شعور کے بارے میں سرگوشیاں تو کررہے ہیں مگر حقیقی دنیا میں اس سے لاتعلق ہیں ۔

ہمارے دماغ یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ آیا ہم شعور و لاشعور کے مابین غلامی کے اثرات کے بابت جانچ پڑتال کررہے ہیں ؟

بقولِ فرانز فینن “قبضہ گیر جہاں بھی اپنا قدم رکھتا ہے وہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ لوگ بڑے جاہل ، وحشی ، جنگلی ،غیر مہذب ، ان کے علاقے بہت پسماندہ ہے ، ہم انہیں جہالت اور پسماندگی سے نکالنے کے لئے آئے ہیں ، انہیں ترقی دینا چاہتے ہیں ۔ لیکن اصل میں جہالت و پسماندگی کے نام پر قبضہ گیر سارے معدنیات ، ان کے زخائر کو قبضہ کرنا چاہتا ہے اور بس انہیں ایک منڈی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ آنے والے وقت میں گوادر قبضہ گیر کے لئے ایک منڈی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ یہ ترقی و خوشحالی محض باتیں و دوغلا پالیسی ہے اور قبضہ گیریت کے لئے بڑھاوا ہیں ۔

یہ نام نہاد جمہوریت پسند ، یہ نام نہاد لیڈر ، یہ نام نہاد میر و معتبر بس اپنے لئے سوچتے ہیں ۔ اگر گوادر کے شہریوں کو چھٹکارہ پانا ہے تو پاکستان کے قبضہ گیریت سے پانا ہے ، اس کے ظلم و جبر سے پانا ہے ۔ اس کے لئے واحد راستہ اتحاد و یکجہتی ہے ، گوادر کے عوام کو خود سے اتحاد و یکجہتی رکھنا چاہئیے ۔۔اور پاکستان کے ہر گھناؤنے سازش کو ناکام کرنے کئے لئے مسلسل جدّوجہد کرنی چائیے کیونکہ مسلسل جدّوجہد ہی زندگی ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں