کیا روتی مائیں جان پائے کہ انسانی حقوق کا دن گذر گیا؟ – محمد خان داؤد

140

کیا روتی مائیں جان پائے کہ انسانی حقوق کا دن گذر گیا؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ اس سال سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کی گئی۔اسی سال میڈیا کو سب سے زیادہ دبوچہ گیا،اسی سال بہت سے صحافی مارے گئے۔اسی سال ان میڈیا ہاؤسس کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا جن میڈیا ہاؤسس پر لوگوں کا زیادہ اعتماد ہے۔کہتے ہیں اسی سال ان صحافیوں کو ڈرایا گیا،دھمکایا گیا، مارا گیا،یا پھر خرید کیا گیا جن صحافیوں کا لوگوں سے قربت کا رشتہ زیادہ ہے ۔جن کے لکھے کالم اور جن کے تجزیے زیادہ بھروسے کے لائق ہوتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ اسی سال بہت سے ایسے کالمسٹوں کے کالم ان اخبارات میں شائع نہیں ہو پائے جو بہت زیادہ پرھے جا تے ہیں اور ان اداروں نے انہیں کوئی وجہ بھی نہیں بتائی اور انہیں زیادہ لکھنے سے منع بھی کر دیا۔

کہتے ہیں اسی سال بہت سے صحافی بے روزگار کر دیے گئے ہیں اور بہت سو ں کو ابھی بے روزگار کیا جائے گا۔اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسی سال جس سال کے ابھی تمام ہونے میں کچھ دن باقی ہیں اسی سال سب سے زیادہ لوگ گم کر دیے گئے۔

پہلے تو بس آمنہ مسعود جنجوعہ روڈوں پر ہوا کر تی تھی اب تو ہر دوسری بیٹی اپنے بابا یا اپنے بھائی کے لیے روڈوں پر ہے۔ کہتے ہیں اسی سال جو سال بس الوادع کرنے کو جا رہا ہے۔ جس کے بس کچھ دن باقی بچے ہیں اس سال سب سے زیادہ انسان اپنے گھروں سے،کاموں سے اور سودری جگھوں سے اُٹھا لیے گئے۔ اصل تعداد تو وہ ادارے ہی بتا پائیں گے جو اپنے پاس ایسے کیسز کو رپورٹ کرتے ہیں پر کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اس سال نو سو افراد غائیب یا گم کر دیئے گئے ہیں۔

سال گذر رہا ہے، گذر جا ئے گا۔ اس جا تے سال کو کون روکے گا؟
پر اسی سال میں ایک دن9 ڈسمبربھی آتا ہے ۔جسے انسانی حقوق کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس دن بڑے شہروں میں اس دن کے حوالے دے بہت سے پروگرام کیے جا تے ہیں۔ اور سب کے سامنے ایسی باتیں دھرائی جا تی ہیں کہ
،، ہمیں انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے،،

پر جب اسی چلتے سال میں نو سو افراد گم کر دیے جا ئیں روز روڈوں پر احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہوں۔ پریس کلب پر وہ بیٹیاں ذلیل ہو رہی ہوں۔جن کے ہونٹ درد سے پیلے ہو رہے ہوں،جن کے بال بالوں میں اُلجھ رہے ہوں،جن کی نیندیں ماری جا چکی ہوں جن کے دل درد سے بھرے ہوئے ہوں۔ جو رونا چاہتی ہوں پر جن کو کوئی رونے نہ دے، جو بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں جو کچھ نہ کہہ پائیں۔جو ماتم کرنا چاہتی ہوں جن کو کائی ماتم کرنے نہ دے۔جو بات کرنا چاہتی ہوں جن کے لب سلے ہوئے ہوں۔جن کے ہاتھوں میں اپنے گم کیے پیاروں کی بہت سی فوٹو ہوں۔ جو وہ ان تصاویر کو سب کو دکھانا چاہتی ہوں جو کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔جو اپنے پاس سے گذرتے کیمرا مین کو دیکھ کر چیخنا چا ہتی ہوں جو یہ چا ہتی ہوں کہ ان کی رو تی چیختی تصویر کل قومی نہیں تو علاقائی اخبار کی زینت تو ضرور بنے۔

جو ٹی وی کیمرا کے سامنے اپنے دردوں کو بیان کرنا چا ہتی ہیں۔جو ان چلتے رپورٹروں جو یہ بتانا چا ہتی ہیں کہ ان کے گھر میں آخری بار کب کھانا پکا تھا۔جو ان رپورٹروں کو یہ بتانا چا ہتی ہیں کہ ان کے گھروں میں ان کی مائیں بیمار پڑی ہیں۔جو راہ چلتے چیف جسٹس کو یہ بتانا چا ہتی ہیں کہ ان کے بابا اور ان کے بھائی کو کس وڈیرے نے کیوں قتل کیا جو راہ چلتے چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے آ جا تی ہیں جو چیف جسٹس کو رکنے کا اشارہ کرتی ہیں۔پر پھر بھی قومی میڈیا ان کو رپورٹ نہیں کرتا۔

جن کا جیون کورٹ ،پریس کلب اور روڈوں کے درمیان چلتے چلتے پو را ہو رہا ہے۔
ان کے بال اُلجھے اُلجھے ہوئے ہیں۔ان کے ہونٹ درد سے پیلے ہو رہے ہیں اور ان کے پیر چل چل کر اب تھک چکے ہیں۔

جو کچھ بھی نہیں جانتی۔جنہیں کچھ نہیں معلوم کہ ملکی مفاد کیسے راز میں رکھے جا تے ہیں؟ جو یہ بھی نہیں جانتیں کہ ان کے پیاروں سے کیا گناہ سرزد ہو چکا ہے۔انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ اپنی بات کس سے کہیں اور کیسے؟انہیں بس جو سمجھ آرہا ہے وہ ویسے ہی کر رہی ہیں۔پر وہ تو کوئی عقلِ کل بھی نہیں اور نہ ہی وہ دانشور ہیں۔وہ تو بس بہت سے چھوٹے گوٹھوں اور گاؤں کی بیٹیاں ہیں۔ان کے پاس تو نہ اتنے کپڑے ہیں کہ وہ ان راہوں میں چلتے روز اپنے کپڑے تبدیل کیا کریں کہ ان کے جسم سے بدبو نہ پھوٹا کرے اور نہ ہی ان کے پاس اتنے جو تے ہیں کہ وہ روز ان جوتوں کو بدلی کریں۔جس سے ان کے پیروں میں سفر اور مسافتوں سے درد اور بدبو نہ ہو۔پر وہ ایسا نہیں کر پا رہیں۔

ان کے پاس تو بس درد ہے۔ایسا درد جو کم نہیں ہو رہا۔ایسا درد جو روز بڑھ جا تا ہے۔
وہ بس بغیر منزل کی مسافر بن چکی ہیں۔وہ بہت چلی ہیں۔کوئی لاڑکانہ سے کوئی آواران سے!کوئی پنڈی سے کوئی لاڑکانہ سے کوئی کہیں سے اور کوئی کہیں سے۔
ان کے پاس کچھ نہیں ان کے پاس بس دردداں دی ماری دلڑی ہے جو روتی ہے تو آنکھیں بھی اشک بار ہو جاتی ہیں اگر وہ آنسو نہیں بہتے تو چلتے چلتے پیر تھک جا تے ہیں۔اگر پیر نہیں تھکتے تو وہ نین تھک جاتے ہیں جو انتظار کی اذیت سے گز رہے ہیں۔

جو بیٹیاں ہنسنا تو بھول ہی چکی ہیں۔پر انہیں تو رونے کی بھی اجازت نہیں۔اگر وہ روڈوں پر نکل کر رونا چا ہتی ہیں تو کوئی ذلیل پولیس آفیسر انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیتا ہے۔اور بہت سے اخباری فوٹو گرافر ان کی بہت سی تصایر لے کر بھی ان اخبارات میں شائع نہیں کرتے جن اخباروں کو سرکار بہت سے پیسوں والے اشتہتار دیتی ہے۔پھر وہ تصاویر کہاں جا تی ہیں؟پھر وہ اخباری نویس کیوں ان غموں کی ما ری کی تصاویر لیتے ہیں۔وہ ان سوکھے ہونٹوں والی بچیوں کے درد کو کیوں نہیں سمجھتے؟

یہ تو وہ بچیاں ہیں جو درد کو زبان دینے کو گھروں سے باہر آئی ہیں جو کچھ نہیں جانتیں۔
جنہیں کچھ نہیں معلوم جو بس اپنے پیاروں کو تلاشتے تلاشتے ایسی راہ پر آ چکی ہیں جو راہیں مقتل کو جا تی ہیں جن راہوں پر بس درد کے سوا کچھ نہیں!جو اب اتنا جان پائیں ہیں کہ انسانی حقوق بھی ہو تے ہیں اور یہ سرکا ری ادارے اس دن پر ان اخبارات کو بہت سے پیسوں والے اشتہار بھی دیتے ہیں جو اخبارات سرکار کا بیانیاں کو بہت ہی اچھی جگہ پر شائع کر تے ہیں۔
اور ان بے ہودہ سے اخبارات کے فرنٹ پیجوں پر انسانی حقوق کے حوالے سے اشتہار چھپے ہوتے ہیں۔
پر وہ مائیں جو اپنوں کی یاد میں رو رو کر اندھی ہو رہے ہیں۔ جو سورج کے روشنی میں بھی کچھ دور نہیں دیکھ پا تیں جو اپنے گھروں میں رہنے والے ان لوگوں کو بس آوازوں سے جانتی ہیں جو بہت قریبّ آکر انہیں جتا تے ہیں کہ اماں ہم آ گئے ہیں۔
کیا وہ مائیں جو درددوں کی ما ری ہیں جن کے دل علیل ہیں جو بہت بیمار ہیں جنہیں اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ انہوں نے آخری بار بخا ر کی گولی کب لے تھی؟

وہ جو بس اپنے چھوٹے سے گھروں میں بستروں اور دردوں کی ہو کر رہ گئی ہیں جن کی آنکھوں نے بہت سے سالوں سے ڈھلتے سورج کو نہیں دیکھا وہ مائیں جن کی آنکھوں نے بہت سے دنوں سے کسی چمکتے چاند کو نہیں دیکھا۔وہ مائیں جن کے آنگن میں کوئی عید کا گزر نہیں ہوا۔وہ مائیں جن کے سروں پر بس دردوں کا ڈیرہ ہے۔وہ مائیں جنہیں رسمِ دعا یا د نہیں۔وہ مائیں جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے جسم پر کس رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے۔پر وہ مائیں آج تک یہ نہیں بھول پائیں کہ جب وہ آخری رات بستر پر سویا تھا تو اس نے کون سے رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔جب وہ صبح تیار ہو کر گھر سے جا رہا تھا۔یہ کہہ کر ،،کہ اماں جلد لوٹ آؤں گا،،اور وہ جلدی کیا پر بہت دیر سے بھی نہیں لوٹا تو اسے کس رنگ کے کپڑے پہنے ہو ئے تھے۔وہ مائیں جنہیں بس رونے کا بہانا چاہیے ۔وہ مائیں جو رمضان آنے پر رو تی ہیں۔وہ مائیں جو عید کے ایاموں میں رو تی ہیں۔وہ مائیں جو آشورہ میں اشک بار رہتی ہیں۔وہ مائیں جن کی آنکھیں با رش کے مثل ہیں۔وہ مائیں جو رات کے ڈھلنے پر رو تی ہیں۔وہ مائیں جو دن کے ابھرنے پر رو تی ہیں۔وہ مائیں جو آکاش کو دیکھ کر رو تی ہیں۔وہ مائیں جو آکاش پر آزاد پرندوں کو دیکھ کر رو تی ہیں
وہ مائیں ۔

وہ مائیں جو بہت آزاد ہیں
وہ مائیں جو بہت مقید ہیں
۔وہ مائیں جو مقتل میں آزاد ہیں
وہ مائیں جن کے نصیب میں بس مقتل جیسی آزادی ہے
وہ مائیں جو آتے جا تے لوگوں سے اپنے پیاروں کا پتا پو چھتی ہیں ۔
جب انہیں کوئی دلاسہ بھی نہیں دیتا تو وہ ۔۔۔۔
وہ مائیں جو کچھ نہیں جانتی۔وہ مائیں جو ریاست کو نہیں جانتی۔وہ مائیں پھر کیوں سوئے مقتل میں ہیں؟!!!
کیا وہ مائیں جن کا جیون سوئے مقتل میں ہے۔
وہ مائیں جن کی آنکھوں میں ازیت بھرا درد سما ہوا ہے۔
کیا وہ مائیں جان پائیں گی کہ
،،انسانی حقوق کا دن بھی تھا جو گزر گیا جس دن بڑے شہروں میں بہت سے پروگرام رکھے گئے۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔مائیں۔۔۔۔۔۔۔!
کوئی آئے اور ان ماؤں کو بتائے کہ وہ نہ روئیں
انسانی حقوق کا عالمی دن بھی گذر گیا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔