کھیل محبت کا سرچشمہ – شفیع اللہ عمرانی

212

کھیل محبت کا سرچشمہ

تحریر: شفیع اللہ عمرانی

دی بلوچستان پوسٹ

کھیل انسانی صحت و معاشرتی نشونما اور افزائش میں بہت اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ کھیل ہی وہ طریقہ کار ہے جس سے انسان اپنی دن بھر کی تھکاوٹ جسمانی ذہنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیئے خود کو وقت دینے کی خاطر کام کررہا ہوتاہے۔

کھیل ہی وہ حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ حریف چاہے جس بھی نسل ذات پات کا ہو اسے اسکے فن و مہارت سے قبول کرکے حلیف کی ہی طرح حوصلہ و مستقل مزاجی سے قبول کرتے رہنا ہے۔

کھیل انسانی زہنی و جسمانی نشونماکے ساتھ ساتھ ایک معاشرہ، ایک قوم، ایک ملک کے عوام کے لیئے بیحد ضروری ہوتا ہے۔

کھیل ہی وہ میدان ہے، جو ہر قسم کے مشکل کا مقابلہ سکھاکر ایک ایسی مستقل مزاجی اور حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ پریشانیوں کی وجہ سے رونے دھونے اور اپنی زاتی پریشانیوں کی وجہ سے کسی اور کو تنگ کرنے کے بجائے خود ہی خود مسئلوں کا حل تلاش کرنے کا فن بھی انسان آہستہ آہستہ پالیتا ہے۔

سب سے اہم کام یہ ہے کہ لوگ منشیات سے آہستہ آہستہ دور ہوتے رہتے ہیں۔ اور اصل کھیل کے فلسفے کو سمجھ کے محبت کرنے والے حوصلہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی محبت کو قبول کرتے رہتے ہیں۔

بہت سارے ترقی پذیر قوموں و ملکوں کی معاشرتی ترقی کے لیئے کام کرنے والے کہتے ہیں کھیلوں سے پیار، منشیات سے انکاراور ماہر نفسیات بھی اسی بات پہ زور دیتے ہیں کہ دن میں کم ازکم ایک (اسٹروک) کھیل کھیلنا چاہیئے ۔

ویسے تو بے شمار کھیل موجود ہیں ۔موسم اور آب وہوا کی وجہ سے مختلف علاقوں کے لوگ مختلف کھیل کھیلتے ہیں۔ کھیلوں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ انڈور اور آئوٹ ڈور۔

کھیلوں میں مشہور کرکٹ ،فٹبال، ہاکی ،بیڈمنٹن، اسکوائش وغیرہ مگر جہاں جس کھیل کو ترجیحات ملتی ہے وہاں کے لوگ اس کھیل سے محبت کرنا شروع کرتے ہیں۔

کچھ براعظم بالخصوص کچھ ملکوں میں تو فٹبال اور کرکٹ بہت ہی اعلی مرتبہ رکھتا ہے۔

اگر ملک پاکستان کو دیکھیں تو بہت سے شائقین کرکٹ و فٹبال کے زیادہ ملینگے حالانکہ ملک کا قومی کھیل ہاکی ہے مگر موسم اور کھیلوں سے محبت کرنے کی وجہ سے کوئ فرق کسی کو بھی کھیل میں یہاں کے لوگوں میں نظر نہیں آتا۔

اب اگر بلوچستان میں مشکل حالات و کھیل کے محبت میں نڈھال نوجوانوں کو دیکھیں تو ان کی اس انتھک محبت سے ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کے جوان اپنے بیروزگاری،تمام تر محرومیوں کے باوجود بھی بہت سارے علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کھیلوں کا اہتمام کرکے خود ہی گراونڈ وغیرہ کے خرچے اٹھا رہے ہیں ۔

بلوچستان کے مختلف ضلعوں میں کرکٹ اور فٹبال کے کھیلوں کا اہتمام بھی خود وہاں کے نوجوان پلیئرز کرتے ہیں اور کچھ ضلعوں جن میں خضدار سرفہرست ہے وہاں کے نوجوانوں کی بات ہی الگ ہے۔تقریباً ضلع خضدار میں کھلاڑیوں اور شائقین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔خضدار کے چاروں تحصیلوں میں نوجوانوں نے بہت ہی محنت سے کھیلوں خاصکر کرکٹ کو بہت اہمیت دی ہے اور خود کے زمینوں میں گراونڈ اور وہاں پہ ہی یونین کونسل سے تحصیل اور تحصیل سے ضلع اور ضلع سے ڈویژن حتی کہ صوبہ بھر کے ٹیمیوں کے ساتھ انکا جڑت موجود ہے اور اسی کھیلوں کی فروغ نے خضدار کے نوجوانوں میں ایسی مشکل حالات میں زندہ رہ کر ہر مشکل کا سامنا کرنے کی مکمل جرت اور حوصلہ پیدا کی ہے۔

پچھلے ہفتے خضدار کے نوجوانوں کو ضلع سے باہر کھیل کھیلنے کا ایک نایاب موقع ملا تو نوجوانوں نے اس وقت کو قیمتی سمجھ کے ضلع خاران کے ٹورنامنٹ میں حصہ لیا ۔

خاران کانام ہی سنا تھا انکی کھیلوں سے محبت کی داستانیں سنے تھے ۔مگر اس ماحول اور پریشانیوں کے باوجود خاران میں جب ہم لوگ داخل ہوئے تو انکی مہمان نوازی اور عزت بخش ماحول نے پورے ٹیم کو حیران کردیا۔آج تک نہ ایسی عزت احترام کرکٹ کے لیئے ہم نے پایا تھا نہ ایسی عزت ملی تھی جتنی خاران کے مہمان نوازی نے وہاں کے لوگوں نے ہمیں بخش دی ایسا محسوس ہورہا تھا محبت کی جھولیوں میں جھلانے والے لوگوں کی آغوش میں آئے ہیں ۔کرکٹ پہ ناز ہونے لگا تھا۔

ایسا لگتا کھیل کھیلنے کا اصل مقصد جو محبت کا ملنساری کا برداشت کا فلسفہ ہے وہ مل رہا ہے ۔

خیر مہمان نوازی بعد کی حیرانی تب ہوا جب گرائونڈ پہ موجود تماشائیوں نے اس سے بھی زیادہ حوصلہ عزت اور قبولیت کا احساس دیا ایسا محسوس ہورہا تھا ۔باغبانہ ،ٹائون شب ،شارجہ،پیپسی ،توتک ،نوغے یا اپنے اپنے گھروں کے قریبی گراونڈ میں کھیل رہے ہیں اور تماشائی پورے یکسانیت سے انکے ہر اک بال پہ انکو داد دے رہے ہیں۔

امپائروں کی محبت نے تو مزید اخلاقی درجہ دلایا خاران کو پورے خضدار کے لیئے۔

اب خضدار کے کھلاڑیوں کا خوف پریشانیاں سب ختم تھیں خاران کے ایک گرائونڈ پہ ایسا کھیل کھیل رہے تھے کہ انکو محسوس تک نہ ہوا کہ وہ خضدار میں ہیں یا کسی اور جگہ جیت سے زیادہ محبت نے انکو متاثر اور اسی محبت نے خاران کو خضدار کا ہر پریشانی کا ساتھی بنادیا۔اور یہی پیغام خاران سے خضدار تک محبت کے آنسوئوں کے ساتھ لے آکر بیان کرنے لگے کہ کھیل کھیلنا محبت نہیں ہوتا کھیل کو سمجھ کے دوسرے کھلاڑیوں کو عزت و احترام دینا اور حوصلہ و ایمانداری سے فیصلہ لینا ہی اصل کھیلوں کا مقصد ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔