بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4148 دن مکمل ہوگئے۔ قلات سے سماجی کارکن خیر جان بلوچ، نعیم بلوچ، داد محمد اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گذشتہ دنوں جبری لاپتہ ہونے کے بعد رہا ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی سے ان کے رہائش گاہ پر ملاقات کی، اس موقع پر حوران بلوچ بھی ان کے ہمراہ تھی۔
نصر اللہ بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے لکھا کہ پروفیسر لیاقت سنی سے ان کے بازیابی کے بعد ملاقات، گھر میں خوشیوں کا سماں تھا، یقیناً لاپتہ شخص کی بازیابی ان کے اہلخانہ اور عزیز و اقارب کیلئے زندگی کی سب خوشیوں سے بڑی خوشی ہوتی ہے اللہ کرے کہ دیگر لاپتہ افراد بھی بازیاب ہو اور انکے گھروں میں بھی خوشیاں کا سماں ہو۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں وفود سے گفتگو کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ دنیا طاقتور اور کمزور یا طاقتوروں کے درمیان سبقت حاصل کرنے کے جدوجہد کے درمیان منقسم ہے۔ دنیا میں وہی قوم عزت اور احترام کے ساتھ اپنے ملک میں رہ سکتا ہے جو قوت کا مقابلہ پرامن جدوجہد سے کریگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان جو تہتر سالوں سے پاکستانی عسکری اور اس کے ذیلی اداروں کے براہ راست کنٹرول میں ہے، آج بلوچستان میں نوے فیصد حصے پر کاروائی جاری ہے۔ ریاستی مارو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت نہتے سیاسی کارکنان، ادیب، شاعر، وکلاء، ڈاکٹر کو نیم فوجی ادارہ ایف سی اغواء کرکے لاپتہ کرنے کے بعد سالہ سال اذیت دیکر ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکتے ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ تاریخ اس وقت خود کو ضرور دہراتی ہے جب اسے اس عمل کا سامنا ہوتا ہے۔ آج بلوچوں کو ایران گجر اور پاکستانی پنجابی کے تسلط کا سامنا ہے جس کا علاج پرامن جدوجہد میں ہے۔