کریمہ بلوچ مبینہ قتل: گوادر، اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں میں ریلیاں

630

معروف بلوچ خاتون رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کے خلاف مظاہرے تیسرے دن بھی جاری رہیں۔ جمعے کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر اسلام آباد، گوادر، پسنی اور سوراب میں لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا۔

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔

ریلی اور مظاہرے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اس موقع پر مظاہرین نے کہا کہ کریمہ کی موت نے بلوچ سماج کو بیدار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زندہ کریمہ بلوچستان کے خواتین کو قومی جدوجہد میں شمولیت کا درس دے کر چلی گئی آج بلوچستان کی سڑکوں پر ہزاروں کریمہ پیدا ہوئے ہیں۔

ریلی کے شرکاء نے کہا کہ آج ترقی کے نام پر ہمیں باڑ لگا کر بلوچستان سے جدا کیا جارہا ہے لیکن گوادر کو بلوچستان سے جدا کرنے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔

بعد ازاںں ریلی کے شرکاء نے شمعیں روشن کیے اور کریمہ بلوچ کو خراج تحسین پیش کیا۔

وہاں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف بلوچ طلباء طالبات کے مظاہرے اور دھرنے میں عوامی ورکز پارٹی، ہیومن ڈیموکریٹ موومنٹ سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے نمائندوں نے شرکت کرکے اظہار یکجہتی کیا۔

اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو مظلوم اقوام کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔

مقررین نے اپوزیشن جماعتوں کی اتحاد پی ڈی ایم اے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچ کے خون پر یہ جماعتیں خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا بلوچ کا خون سرکار کے ساتھ اپوزیشن کو بھی نظر نہیں آتا، انہوں نے کہا بلوچ کہاں جائے؟

انہوں نے کہا کہ کریمہ مزاحمت کی علامت ہے جب بلوچستان میں بلوچ مردوں کی سیاست شجر ممنوعہ قرار دے چکی تھی تو کریمہ نے بلوچ طلباء کی قیادت کی۔

اسلام آباد میں مظاہرین نے کینیڈا حکومت سے صاف و شفاف طریقے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بلوچستان کے شہروں پسنی اور سوراب میں بھی کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف لوگوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر مارچ کیا اور سانحےکو ریاستی قتل قرار دیا۔

پریس کلب سوراب کے سامنے احتجاجی مظاہرے میں سوراب کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء سمیت ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر مختلف قوم پرست جماعتوں، طلباء تنظیموں سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بانک کریمہ بلوچ کی مسلسل جدوجہد کوسلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کی ہمت حوصلہ اور جہد مسلسل نے آج سوراب سمیت بلوچستان کو بیدار کیا ہے۔

سوراب اور پسنی میں مظاہرین نے کینڈین حکومت اور ٹورنٹو پولیس پر بانک کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل پر صاف شفاف انکوائری کرنے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ کینیڈا میں کریمہ بلوچ کی مبینہ قتل کے خلاف اس وقت بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور لوگوں میں غم غصہ پایا جاتا ہے۔