کریمہ بلوچ – سمیرہ بلوچ

385

کریمہ بلوچ

تحریر : سمیرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شیر جب جنگل میں آتا ہے تو ہرن اور باقی جانور بھاگ کر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یہ علم ہے کہ شیر سے انکی جان کو خطرہ ہے۔جب قدرت نے جانوروں کو یہ شعور دیا ہے، کہ وہ اپنے دشمن کی پہچان رکھتے ہیں تو وہ انسان ہی کیا جسے اپنے دشمن کی پہچان نہ ہو اور وہ اپنے دشمن کے عزائم سے آگاہی نہ رکھتی ہو، تو کیا ہم بلوچ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا دشمن کون ہے اور کریمہ بلوچ کا قاتل کون ہے۔

کریمہ بلوچ کی ناگہانی اور دلخراش موت نے بلوچ قوم کو جس قدر رنجیدہ کیا ہے اس درد کو زبان دینا ممکن تو نہیں ہے، لیکن درد بھی ایسا ہے کہ اسے چپ رہ کر سہا نہیں جا سکتا ہے۔

کریمہ بلوچ کوئی گمنام نام نہیں، وہ ایک ایسی شخصیت تھی، جس نے اپنی انگنت محنت اور مسلسل جدوجہد سے بلوچ قومی تحریک میں جس قدر کم وقت میں اپنا جو نام اور مقام بنایا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بلوچستان کی تاریخ میں تنظیم بی ایس او کی پہلی خاتون چئیر پرسن ہونا اور 2016 میں بی بی سی کی طرف سے 100 بااثر خواتین میں انکا نام ہونا انکی کرشماتی شخصیت کی ہی بدولت ممکن ہوا تھا۔

کریمہ بلوچ تربت میں ضلع کیچ کے علاقے تمپ کی رہائشی تھی۔انھوں نے تربت سے بی اے کیا ۔ کریمہ کے والد غیر سیاسی شخص ہے، وہ مسقط میں کام کرنے والا ایک عام انسان ہے۔ کریمہ بلوچ کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔

کریمہ بلوچ کے والد کا تو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں لیکن انکے چچا واحد قمبر بلوچستان کے حریت پسند تحریک کے ایک سرگرم رکن ہے۔ اور پاکستان کے خلاف بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کریمہ بلوچ کے ایک چچا ڈاکٹر خالد بلوچ پاکستانی فوج کے ہاتھوں پہلے ہی شہید ہوچکے ہیں۔ اسکے علاؤہ کریمہ بلوچ کے ماموں ماسٹر نور احمد بلوچ کو ریاست نے جبری طور پر گمشدہ کر دیا تھا۔ اور اس کے بعد 2018 جنوری میں انکے اہل خانہ کو انکی لاش ملی، شہادت کا یہ سلسلہ کریمہ بلوچ کے خاندان میں یہی تک نہیں رکا، اسکے کچھ عرصے بعد کریمہ بلوچ کے ایک چچا زاد بھائی کو بھی لاپتہ کرکے اسکی تشدد زدہ لاش کو ریاست نے اسکے خاندان والوں کے حوالے کر دیا اور اب اس خاندان میں بلوچستان کے حقوق کے لیے جنگ لڑنے والی ایک اور فرد کریمہ بلوچ شہید کی بھی لاش 21 دسمبر 2020 کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی۔

کریمہ بلوچ اپنے دشمن سے بخوبی واقف تھی۔ اسی لیے اس نے کینیڈا جا کر سیاسی پناہ لی۔ اور اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بلوچ قوم پر پاکستان آرمی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور جبر کے خلاف اپنی آواز بین الاقوامی سطح پر بلند کرتی رہی۔ کریمہ بلوچ کو تحفظ دینا کینیڈا حکومت کی ذمہ داری تھی۔لیکن کینیڈا حکومت اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوئی۔اور اپنی اسی ناکامی کو چھپانے کے لیے وہ کریمہ بلوچ کے قتل کو حادثے کا نام دے رہی ہے.

کریمہ بلوچ نے بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں سے دنیا کو آگاہ کرتی رہی ۔لیکن افسوس یہ یورپین یونین جو خود کو ایک مہذب معاشرہ اور انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہے۔وہ صرف ایک جھوٹ اور دھوکا ہے۔ انکی حقیقت اب بلوچ اور باقی مظلوم قوموں پر آشکار ہو چکی ہے کہ یہ صرف نام نہاد تنظیمیں ہیں۔ یہ کٹھ پُتلی اور دھوکے کے سواکچھ اور نہیں ہے۔

بلوچ قوم اب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو گئی ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں اسکے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اپنی مفادات کی خاطر پاکستان کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

اسی سال کے شروع میں ایک بلوچ جرنلسٹ ساجد حسین بلوچ سوئیڈن میں ایک ماہ لاپتہ ہونے کے بعد اسکی لاش اپسالا کے دریا سے برآمد ہوئی۔اور سوئیڈن پولیس نے بھی کینیڈا حکومت کی طرح ساجد حسین کے موت کو بھی حادثاتی موت قرار دےدیا تھا۔جو کہ بلوچ قوم کے لیے نا قابل قبول بات تھی۔ کیونکہ ہمیں بخوبی علم ہے کہ ساجد حسین کی موت کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔

پاکستان ،چین کی مدد سے یورپین ممالک میں جلاوطن ہمارے بلوچ سیاسی لیڈروں ، انسانی حقوق کے کارکنوں، بلوچ دانشوروں کو نشانہ بنا کر اپنی طاقت کا استعمال کرکے بلوچ قوم کو ڈرا کر اپنا غلام بنایا رکھنا چاہتا ہے۔ بلوچستان میں تو بلوچ قوم ویسے بھی پاکستان کے مظالم کا شکار ہیں۔ جبری گمشدگیاں اور ہمارے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں ہمیں سوغات میں ملتی ہی ہیں۔ اب پاکستان نے اپنے مظالم کا دائرہ کار بڑھ کر بیرون ممالک میں بھی بلوچ ایکٹیویٹیس ، سیاستدانوں اور دانشوروں کو نشانہ بنا رہا ہیں۔ پوری دنیا کی سر زمین کو بلوچ قوم کے لیے تنگ کر رہا ہے۔

پاکستان نے انسانی حقوق پر بولنے والے کارکن راشد حسین کو دبئی سے جبری طور پاکستان لا کے عقوبت خانوں میں قید کیا ہوا ہے اور اسے نہ عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے نہ اسے منظر عام پر لا جا رہا ہے کہ اسکے خاندان والے ان سے مل سکے۔ چند روز قبل کابل میں رفیو جی کمیپ پر حملہ کرکے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے گل بہار بگٹی کو انکے خاندان کے کئی افراد کے ساتھ شہید کیاگیا ، اور اب کریمہ بلوچ کی شہادت، اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کیسے پاکستان نہ صرف بلوچستان بلکہ پوری دنیا میں بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔ عالمی دنیا کی بلوچ نسل کشی پر خاموشی اس بات کے مترداف ہے کہ کیسے بلوچ نسل کشی میں پوری دنیا بڑی دیانت کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف نام کی تنظیمیں ہیں۔اس بات کا ثبوت ہمیں امریکہ کا عراق پر حملہ کے وقت ملا۔جب امریکہ نے عراق پر جھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے بنانے کا الزامات لگایا اور اس بات کو جواز بنا کر عراق پر حملہ کیا۔ تو پوری دنیا میں احتجاج ہوۓ۔ یہاں تک کہ ایک دن میں پانچ براعظموں میں 80 لاکھ افراد نے جنگ کی ہولناکیوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ لیکن اقوام متحدہ امریکہ کو عراق پر حملہ روکنے میں بے بس نظر آیا۔اب بھی ویہی بے بسی اقوام متحدہ کی پاکستان کو بلوچ نسل کشی کو روکنے میں نظر آرہی ہے!!

کریمہ بلوچ کی شہادت کو شاہد پاکستان اپنےلیے بڑی کامیابی قرار دے رہا ہو۔ لیکن حقیقت یہ کہ کریمہ بلوچ کی شہادت نے پوری دنیا کو پاکستان سے متعلق یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ پاکستان بین الاقوامی دہشگرد ملک ہے۔ کوئی بھی ملک اسکے شر سے محفوظ نہیں۔

پاکستان اپنے ان ہتھکنڈوں سے بلوچ قوم کو ڈرنے کی ایک ناکام کوشش کر رہا ہے۔لیکن اب بلوچ قوم اپنی مادر وطن کی آزادی کی تحریک کے اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ کہ اب وہ خوف اور ڈر سے عاری ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے ہمیں اتنا ڈریا کہ اب ہمارا ڈرا ختم ہو چکا ہے۔اب بلوچستان کی آزادی کی تحریک بالکل تازہ دم اور جوان جذبوں کے تحت پروان چڑھ رہی ہے۔ آزادی کے حصول کے لیے یہ قوم اب نڈر، بےباک اور بے خوف ہوچکی ہے۔

وقت سے بے خوف

سامراج سے بےخوف

ظلم و تشدد سے بے خوف

اپنے نفس کی کمزوریوں سے بے خوف!!!

جب انسان اپنے نفس میں انقلاب برپا کرتے ہیں، تب وہ بیرونی دنیا میں تبدیلی کے درپے ہوتے ہیں۔طاقت کا امتحان نہ صرف انسان کے شعور کی تشکیل نو کرتا بلکہ اسکے اردگرد کے ماحول حتی کہ اس پر مسلط ظالم حاکموں تک کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدوجہد مختلف منازل پر نئےنئے روپ دھارتی رہتی ہے، کبھی خواب، کبھی خیال، کبھی وجدان، کبھی یقین اور بالآخر منزل !


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں