غدار ابن غدار
تحریر : میر حمزہ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان اس وقت عالمی خبروں کا حصہ بنا جب پے در پے مذہبی و فرقہ وارانہ دہشتگرد حملوں کے تھانے بانے بدنام زمانہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل کے نام کے ساتھ جوڑنے لگے۔ شفیق مینگل عالمی دہشت گرد تنظیموں کا سرغنہ ہے اور اس کی پشت پناہی پاکستانی فوج اور انٹیلیجینس ادارے کررہے ہیں، وڈھ باڈڑی اور آس پاس کے علاقوں میں باقاعدہ ٹریننگ کیمپس قائم کئے گئے ہیں، جہاں مذہبی دہشت گرد تنظیموں القاعدہ، لشکر خراسان، لشکر جھنگوی جیسے قاتل اور انسان دشمن تنظیموں کے کارندے موجود ہیں، یہاں سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ ایران،افغانستان اور کشمیر میں لڑنے کے لئے دہشت گرد درآمد کئے جاتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے جتنے بڑے کاروائیاں ہوئی ہیں ان میں براہ راست شفیق مینگل ملوث رہے ہیں، شاہ نورانی، سہون، کراچی صفورہ گوٹھ حملوں وکلاء و پولیس ٹرینگ سینٹر واقعات میں بھی یہی گروہ ملوث رہا ہے، ریاستی جے آئی ٹی رپورٹس میں باقاعدہ شفیق مینگل کی ملوث ہونے کے شوائد موجود ہیں، اس کے علاوہ وھیر لیویز چیک پوسٹ پر کچھ چوروں کو چھڑانے کے لئے حملہ کرکے 8 اہلکاروں کو سرعام قتل کیا گیا جسکی ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود یہ پیشہ ور قاتل دندناتے ہوئے آزاد گھوم رہا ہے، توتک اجتماعی قبروں کی عدالتی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی اجتماعی قبروں کی ذمہ دار اس قاتل اور خون خور دہشت گرد کو ٹہرایا ہے، اس کے باوجود اس دہشت گرد کو ریاستی ادارے پروٹوکول اور اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں آزادانہ نقل و حرکت کے لئے سیکورٹی فراہم کررہے ہیں۔
سردار اختر مینگل جب بھی اسمبلی فلور یا دیگر فورمز پر بلوچستان میں جاری مظالم، ریاستی دہشت گردی اور مسنگ پرسننز کا ذکر کرتا ہے اور بلوچ قوم کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو ان سنگین جرائم میں ملوث ریاستی ادارے ان کے خلاف اپنی کرائے کے پالتو ایجنٹوں کے پٹھوں کو کھول دیتے ہیں، کبھی شفیق مینگل کو استعمال کیا جاتا ہے، کبھی سرفراز بگٹی تو کبھی ثناء اللہ زہری کو اس بار پہلے ثناء کو چھوڑا گیا بھونکنے اور کاٹنے کے لئے لیکن وہ اپنے آقاوں کے امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا ہے اب ایک بار پھر مکروہ کام لینے کے لئے شفیق مینگل کو آزاد کیا گیا۔
ایک بار پھر قوم پرست، آزادی پسند سیاسی کارکنوں کے خلاف صف بندی کی جاری ہیں اس مقصد کے لئے ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے تمام کارندوں کو منظم کرنے کے لئے شفیق مینگل کو ٹاسک دی گئی ہے، کوئٹہ میں ان کے سرگرمیاں، حمید گل کی بیٹے کا کوئٹہ آمد شفیق مینگل سمیت دیگر ریاستی آلہ کاروں سے ملاقاتیں اور شفیق مینگل کے لئے خاران کے پہاڑی سلسلے میں بیس کیمپ قائم کرنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
گذشتہ کچھ دنوں سے دوبارہ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں تیزی پیدا کی گئی ہے، پروفیسر لیاقت سنی کے اغواء میں بھی یہی گروہ ملوث ہے، جھنوں نے اس سے قبل پروفیسر رزاق زہری، پروفیسر صباء دشتیاری سمیت دیگر بہت سے ٹیچرز، وکلاء سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا۔
کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران شفیق نے صرف جھوٹے بہتاں بازی، الزام تراشی اور حقائق کو توڑ و مروڑ کر پیش کیا چاہیے تو یہ تھا کہ صحافی ان کے جھوٹے بہتان و دشنام ترازی پر مبنی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اپنے شہید ساتھیوں ارشاد مستوئی، منیر شاکر، محمد خان ساسولی اور عبدالحق زہری سمیت دیگر کے مقدس خون سے وفا کرتے جن کو اسی کی تشکیل کردہ قاتل گروہ مسلح دفاع نامی دہشت گرد تنظیم کے کارندوں نے شفیق مینگل کے حکم پر شہید کیا لیکن صحافی اپنے ساتھیوں سے وفا تو نہیں نبھا سکے کم از کم اپنی مقدس پیشے سے انصاف کرتے ہوئے ان سے یہ پوچھ لیتے کہ ہمارے ساتھیوں کو کس جرم میں اور کیوں شہید کروایا۔ کوئٹہ کے صحافی شفیق کی اصلیت سے مکمل آگاہی رکھتے ہوئے بھی انجان بنے بیٹھے ہوئے تھے، صحافی حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ پریس کانفرنس پلانٹڈ تھا باقاعدہ ایجنسیوں کے ذمہ داران نے صحافیوں کو فون کرکے کانفرنس کے لئے انتظامات و بکنگ کروائے تھے اور الیکٹرانک میڈیا کو کوریج کے لئے باقاعدہ خصوصی ہدایات جاری کیا گیا تھا اس کے باوجود صحافی خاموش رہے، اگر وہ اس مقدس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے پھر اس پیشے سے منسلک کیوں ہوئے ہیں؟
حقیقی سیاسی رہنماوں کے پریس کانفرنسز، بیانات پر پابندی ہے لیکن ایک دہشت گرد کو مکمل یہ حق حاضل ہے کہ وہ جو الزامات لگائے، جھوٹ بولے اس کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر کوریج دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔ اب ریاست اور ریاستی ادارے اتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں ان کو شفیق و ثناء اللہ جیسے لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اختر مینگل کے مخالفت کے لئے ایسے لوگوں کا سہارا لیا جارہا ہے جن کا بلوچ سیاست و قبائلی معاشرے میں کوئی وقعت، اہمیت اور احترام موجود نہیں یہ چند چوروں، ڈاکوؤں، مخبروں پر مشتمل چند وطن فروش اور بکے ہوئے بے ضمیر لوگوں کے جھتے ہیں، کل شفیق مینگل کے پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر نظر دوڑایا ایک بھی معزیز و معتبر فرد نظر نہیں آیا خضدار کے چند لفنگے، کار لیفٹر اور منشیات فروش موجود تھے جو سیاست، سیاسی اقدار کے ابجد سے بھی ناواقف ہیں۔
شفیق نے منافقانہ روش اپناتے ہوئے پریس کانفرنس میں حقیقی بلوچ قومی رہنماوں و سرداروں کے خلاف الزامات کا بوچھاڑ کردیا۔ نواب مری،نواب بگٹی اور سردار مینگل کو پسماندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ بلوچستان کے دیگر علاقے خصوصا بیلہ، ڈیرہ مراد جمالی کیوں پسماندہ ہے یہاں کوئی سردار نہیں بلکہ جام و جمالی ہمیشہ ریاست کے وفادار رہے ہیں تو شفیق نے روایتی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کو گول کرگئے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست کو صرف ان تین سرداروں سے مسئلہ رہا ہے جو ہمیشہ ریاستی مظالم و لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ریاست کے نزدیک کرپشن، لوٹ مار، لوگوں کا خون بہانا کوئی اہمیت نہیں رکھتی اگر اہمیت رکھتی تو ثناء اللہ زہری جیسا کرپٹ سردار قانون کے گرفت میں ہوتا، شفیق جیسا منافق و قاتل اس طرح دندناتے ہوئے نہیں گھومتا اس طرح کے دیگر ریاستی سردار ریاستی طاقت کے بل بوتے پر غریب و مظلوم لوگوں کا جینا حرام نہیں کرتے۔
انہوں نے سردار اختر مینگل پر الزام لگایا کہ 2018 کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی حمایت انہیں حاصل تھا اس کے باوجود میں نے 15 ہزار ووٹ لئے تھے ان کا یہ الزام و دعوای جھوٹ کا پلندہ اور سورج کو انگلی سے چھپانے کی کوشش ہے ایک تو تمام اسٹبلشمنٹ نواز شخصیات کا حمایت شفیق کو حاصل تھا اور دوسرا 15 ہزار ووٹ شفیق کے نہیں بلکہ نیشنل پارٹی اور بزنجو قبائل کے مرہون منت ہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ اپنا ڈنڈا شفیق سے نکال دے تو وہ اپنے یونین کونسل سے بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوگا اور یہ نظارہ وہ پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ بلوچستان میں ریاست نے ہمیشہ حقیقی بلوچ رہنماؤں کے خلاف اپنے گملوں میں ایسے نام نہاد پیشہ ور و دیشتگردوں کو پروان چڑھایا ہے، ضیاء کی دور آمریت میں نصیر محمدزئی کو سامنے لایا گیا اور ان کے لئے قانون میں تبدیلی کی گئی کہ سرکاری ملازم نوکری چھوڑ کر سیاست میں حصہ لئے سکتا ہے، نصیر اور ان کے بیٹوں پر ریاست نے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کیا لیکن ان کو سردار مینگل کے مدمقابل میں عوامی پزیرائی حاصل نہیں ہوسکا صرف جھالاوان میں نہیں بلکہ کوہلو و ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان بھر میں ریاستی پیدا کردہ کردار عوامی پزیرائی سے محروم رہے ہیں بلکہ وقت و حالات کیساتھ وہ خود بخود منظر سے غائب ہوئے ہیں۔ شفیق مینگل اور اس کے بھائی عطاء مینگل کئی عرصے تک کراچی میں مقیم رہے اور وہاں کار لیفٹنگ سمیت دیگر جرائم میں ملوث تھے ان کا ذریعہ معاش چوری و چکاری تھا، ایم کیو ایم والوں کیساتھ تنازعہ پیدا ہونے کے بعد وہاں سے فرار ہوکر وڈھ آکر پناہ لئ اور مشرف کے زمانہ میں جب بلدیاتی انتخابات سے بی این پی نے بائیکاٹ کیا تھا شفیق علاقائی میر و معتبرین کے سفارش پر تحصیل ناظم بنے، تحصیل ناظم بنتے ہی انہوں نے اپنے محسنوں کو آنکھیں دیکھانا شروع کیا اور اس دوران بلوچستان کے حالات بھی خراب ہوئے تو ریاستی اداروں نے انہیں سردار مینگل کے خلاف استعمال کرنے کا آغاز کیا اور وہ باقاعدہ ریاستی اداروں کے سرپرستی میں وڈھ سمیت خضدار میں سیاسی کارکنوں کے خلاف مخبری اور سازشوں میں معاونت کار بن گئے، اس کے بعد انہوں نے جس طرح بلوچستان بھر میں اپنا نیٹ ورک قائم کرکے ظلم و بربریت، قتل عام، سیاسی کارکنوں کی اغوا و مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں ریاستی اداروں کو سہولت فراہم کیا ان کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ کا انمنٹ حصہ بن چکے ہیں جو ہمیشہ ان کے چہرے پر بطور سیاہ کلنک کے موجود رہیں گے اور تاریخ انہیں غدار ابن غدار کے طور پر یاد رکھے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔