طلباء سیاست اور بی ایس او کا پرجوش جنم – جمال امین بلوچ

610

طلباء سیاست اور بی ایس او کا پرجوش جنم

تحریر : جمال امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

اس ریاست میں گذشتہ پانچ دہائیوں سے طلباء سیاست غیر آئینی اور ناجائز قدغنوں کی زد میں ہے، جس کا محرک صاحبان اقتدار و اختیار کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ طلباء یونین پر پابندی کی وجہ یونیورسٹیز میں تشدد اور اسلحہ کلچر کا فروغ تھا، اس بات میں کس حد تک صداقت ہے آپ اس چیز کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ طاقتور اشرافیہ کی خود کی پالیسی ہر دور میں بالعموم اور ضیاء دور کے بعد سے بالخصوص تشدد آمیز رہی ہے، یونیورسٹیز سمیت ہر وہ جگہ جہاں اسلحہ کلچر اور تشدد کا عنصر نظر آتا ہے اس کے ڈورے کسی نا کسی صورت میں اشرافیہ سے ضرور ملتے ہیں، طلباء تنظیموں کے مخصوص گروہوں کو بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تشدد کے رستے پر ڈالا گیا اور پھر اس چیز کو جواز بنا کر طلباء سیاست پر پابندی لگادی گئی، لیکن ریاست کے اندر وہ طلباء دھڑے جنہیں ضیاء دور میں تشدد کا نشہ لگایا گیا وہ آج بھی دھڑلے سے اس نشے کے عادی ہیں، اس کی مثال پنجاب یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیز میں پیش آنے والے واقعات ہیں، جن میں مثبت تعلیمی ماحول کے خواہاں کیمپس پالیٹکس کرتے ترقی پسند طلباء کو بارہا تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس لیے میرے خیال میں یہ بدنیتی پر مبنی ایک غلط تاثر ہے جو عام طور پر طاقتور حلقے طلباء سیاست پر پابندی کو جسٹیفائی کرنے کیلیے دیتے ہیں۔

اس حوالے سے میری رائے میں طلباء سیاست پر پابندی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوان طلباء کے سیاسی شعور کو بیدار ہونے کے رستے میں دیواریں کھڑی کی جائیں تاکہ بدمست اشرافیہ اور ان کی ہم نوا نام نہاد سیاسی ایلیٹ کو استحصال اور جبر کے مزید مواقع میسر آتے رہیں۔

اس تمام تر مایوس کن صورتحال کے باوجود، بلوچستان تمام تر استحصال اور بربریت کی نا ختم ہونے والی داستانوں کے باوجود خوش نصیب خطہ ہے کہ وہاں ساٹھ کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، اپنے قیام سے لے کر آج تک ہر جبر کے سامنے سینہ سپر ہے،  بی ایس او ایک ایسی نظریاتی تربیت گاہ ہے جہاں سے تربیت یافتہ کارکنان زندگی کے مختلف شعبہ جات میں مثبت مزاحمتی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، بلوچستان  مسلسل انسرجینسیز کا شکار ہونے اور یہاں نازی بربریت برپا کرنے کے باوجود اس سرزمین کو مکمل فتح نہیں کیا جا سکا، بی ایس او بلوچستان میں چو مکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف اسے سنڈیمن کی لگائی نرسری کی بدمستی کو کاونٹر کرنا ہے تو دوسری طرف ان قبائلی گماشتوں کے حقیقی آقاوں کے ریاستی سطح پہ مظالم کا سامنا ہے،  اس تمام تر صورتحال کے باوجود بی ایس او زبردست حکمت عملی کے تحت انتہاء پسندی سے نوجوانوں کو دور رکھنے کیلئے دن رات محنت کر رہی ہے، مشرف آمریت کے بعد جب بلوچستان میں سیاسی جمود بڑھا تو مختصر وقت کیلئے بلوچ نوجوان تیزی سے کہیں مایوسی اور کہیں انتہاء پسندی کی جانب راغب ہونے لگے، جس سے بلوچ قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا،  لیکن بی ایس او کے نظریاتی کیڈر کس طرح اس صورتحال سے بے خبر رہ سکتے تھے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں بی ایس او نے مفاہمت پسندانہ اور انتہا پسندانہ شالوں کو اتار کر اپنی نظریاتی تاریخ میں ایک نیا جنم لیا۔ بی ایس او کا ایک منفرد اور انقلابی کنونشن کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں بھاری تعداد میں ان نوجوانوں نے شرکت کی جو جبر کی چکی کے دو پاٹوں میں پستے بلوچ نوجوانوں کی حالت زار کا ادراک کر چکے تھے اور اس طرح کی کسی انقلابی ڈویلپمنٹ کا انتظار کر رہے تھے۔

یہ کونسل سیشن اس حوالے سے بھی منفرد تھا کہ اس میں کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جینوئن سیاسی اور مزاحمتی گراونڈ پر طلباء سیاست نے اس کونسل سیشن کے بعد ایک نئی کروٹ لی۔ قوم پرستی اور ترقی پسند سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور بیک وقت قوم پرست و مارکسی نظریات سے مزین انتہائی انرجیٹک بلوچ نوجوان طالب علم ظریف رند تنظیم کے مرکزی چئرمین منتخب ہوئے۔ ظریف رند کی کابینہ میں شامل تمام قائدین طلباء سیاست کے علاوہ عالمی سیاسی تزویراتی منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور مکالمے کی کوکھ سے رستوں کے تعین کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ سیاسی و فکری نظریات سے لیس اس کاروان نے سیاسی صورتحال کا سائنسی بنیادوں جائزہ لیا، اور انتہا پسندی اور تشدد کی ہر شکل کے خلاف عملی طور پر میدان عمل میں آ گئے، اور تیزی سے بلوچ نوجوانوں کو ملک بھر میں موجود دیگر ترقی پسند سیاسی اور ہم خیال طلباء طبقات سے جوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشل سطح پر بھی اس تنظیم کو بھرپور پذیرائی ملی، یقینی طور پر حقیقی جمہوری اور سیاسی منزل کی امین بی ایس او نام نہاد بلوچیت کے دعوے داروں اور تشدد کے ہتھیاروں سے لیس ریاستی اشرافیائی آمروں کیلئے ایک زبردست چیلنج بنتی نظر آئی۔ اس نئی ڈویلپمنٹ کو کاوئنٹر کرنے کیلئے ان استحصالی طبقات نے اپنے اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے، لیکن بی ایس او کی قیادت کی ثابت قدمی سے اس انقلابی تنظیم کو دبانے میں ناکام رہے۔

حالیہ دنوں میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے پورے ملک میں اسٹوڈنٹ سالیڈیریٹی مارچ کی کال دی تو کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں طلباء ریلیاں نکالی گئیں۔ اور اسی دن لاہور میں طلباء سیاست اور طلباء تنظیموں کے اتحاد کے داعی ڈاکٹر عمار علی جان کو نامعلوم کالے قانون کے تحت ایک مہینے کی نظر بندی کے شاہانہ احکامات صادر کیے گئے۔ ملک بھر میں اس طلباء مارچ کا سب سے بڑا اور آرگنائزڈ مارچ بلوچ اسٹوڈنٹس ارگنائزیشن نے کوئٹہ میں منعقد کیا، اس مارچ کو کامیاب بنانے کیلئے بی ایس او کے متحرک نوجوانوں نے بہت زیادہ محنت کی، اس تمام تر کمپئین میں نوجوان قائدین حسیب بلوچ، سازین بلوچ اور جئیند بلوچ نے زبردست کام کیا۔ ان قائدین کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں بی ایس او یہ زبردست مارچ کرنے میں کامیاب رہی۔ بی ایس او کے اس مارچ نے ایک امید اور جذبے کی چنگاری دوبارہ سے بلوچستان اور بلوچ قوم میں سلگا ڈالی، اس مارچ سے بی ایس او کے دیگر قائدین کے ساتھ ساتھ مرکزی چیئرمین ظریف رند نے بھی خطاب کیا، بی ایس او کا یہ تاریخی مارچ طلباء سیاست اور بلوچ طلباء کیلیے تعلیمی و سیاسی میدان میں روڈ میپ ثابت ہو گا۔ لال لال سرزمین پر درختوں کے پتوں میں بھی لہو بولتا ہے، اس سرزمین نے اتنا خون دیکھا ہے کہ کلر بلائنڈنس سے اس سرزمین کے فرزندوں کو ہر رنگ سرخ نظر آتا ہے، سرخ پرچم پر علم کی شمع ایک انقلاب کی نوید ہے،  اور صبح ازل کی پہلی کرن گواہی دے گی اس عظیم تر امن آشتی اور انسانی تکریم سے منظم انقلاب نے بی ایس او کا پرچم زیب تن کیا ہوا ہے۔ بی ایس او کے اس حالیہ مارچ سے ٹوٹتی سانسوں اور دم توڑتے جزبوں کو نئی توانائی میسر آئی ہے۔ بی ایس او کی جدید اور سائنسی انداز میں ولولہ انگیز جدوجہد سے بلوچ نوجوان خود کو دنیا کی بہترین، مہذب ، پرامن اور حقیقت پسند قوم تسلیم کروانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

بی ایس او کی حالیہ انقلابی جدوجہد بلوچ طلباء میں سرزمین کے ساتھ جڑت کے ساتھ ساتھ انہیں موقع پرستی، لالچ، مایوسی اور پاپولر یوٹوپیائی تصورات جیسے عفریتوں سے بچاتے ہوئے “اتحاد، جدوجہد ، آخری فتح تک” جیسے سنہری رہنماء اصول کو سینے سے لگائے منزل کی جانب پوری آب و تاب کے ساتھ محو سفر ہے۔ زمین کے سینے پہ جلتی آگ کو رام کرنے کیلئے اس تنظیم کے پاس نظریاتی فائربرگیڈ کی مکمل، تازہ دم اور تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔ بی ایس او ملک کی دیگر طلباء تنظیموں کو بھی یہ پیغام دے رہی ہے کہ اب اندھیروں کے مقابل سرخ پرچم پر خون دل کی توانائی سے شمع جلانی ہو گی۔ تاکہ ایک روشن سویرا طلباء کی لازوال اور انقلابی جدوجہد کے طفیل صدیوں کی شکست خوردہ اور سہمی انسانیت کے حصے میں آئے۔
بلوچ طلباء کو بغیر کوئی وقت ضائع کیے، عظیم تر مقصد کو لیے بی ایس او کے اس سرخ پوش قافلے کا حصہ بننا ہو گا۔ جبر کی آندھی کے مقابل جلتی اس شمع کو شکتی دینی ہو گی، اور اپنے وطن کے دفاع میں جمہوری اقدار کی امین اس تنظیم کا ساتھ دینا ہو گا، مجھے یقین ہے کہ طلباء سیاست انگڑائی لے رہی ہے اور جلد ہی بڑی کامیابی طلباء کا مقدر ہوگی۔ اور میں یہ بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بی ایس او میں ہی وہ پوٹینشل ہے جو طلباء سیاست پر چھائے جبر و استبداد کے بادلوں کو ہٹا سکے،  بی ایس او بلوچ وطن اور بلوچ قوم کا آخری مورچہ ہے اور بلوچ نوجوانوں کو اپنے آخری مورچے کو ہر حوالے سے مضبوط بنانا ہو گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں