بلوچ صحافی ساجد حسین کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ساجد حسین کی گمشدگی و پر اسرار قتل کے بارے میں سویڈش حکام نے تعاون نہیں کیا اور حالیہ بلوچ طلباء لیڈر کریمہ بلوچ کا واقعہ ایک دلخراش واقعہ ہے-
یاد رہے صحافی ساجد حسین بلوچ رواں سال 2 مارچ کو سویڈن کے شہر اپسلا سے اچانک غائب ہوگئے تھے جس کے بعد انکے خاندان و دوستوں نے ساجد کی گمشدگی کی رپوٹ سویڈش حکام میں درج کرائی تھی تاہم دو ماہ بعد اپسلا کے قریب ایک ندی سے ساجد حسین کی لاش سویڈش حکام نے برآمد کرلی تھی-
ساجد حسین کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ شروع سے ہی میں نے کبھی یقین نہیں کیا کہ ساجد حسین کی موت خودکشی یا حادثہ تھا میں نے سویڈش حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ باقی دستاویزات میرے حوالے کردیں۔ مجھے سویڈش پولیس سے جو کچھ ملا وہ قابل اطمینان نہیں تھا اور میں ان کی تفتیش سےمطمئین نہیں ہوں اور سویڈش حکام سے مزید شواہد طلب کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں کریمہ بلوچ اسی طرح مردہ پائی گئیں جس طرح میرے شوہر پائے گئے تھے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی جرم کے ارتکاب کو خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا۔
شہناز ساجد نے مزید لکھا ہے کہ بانک کریمہ بلوچ کے شہادت پر حمل حیدر اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتی ہوں یقیناًیہ ایک دلخراش واقعہ ہے –
یاد رہے بلوچ صحافی و بلوچستان ٹائمز جریدے کے چیف ایڈیٹر ساجد حسین کی لاش اپسلا شہر کے قریب ایک ندی سے برآمد ہوئی تھی وہ دو ماہ تک لاپتہ رہے بلوچ حلقوں میں دونوں واقعات کی نوعیت کو لیکر خدشات پائے جاتے ہیں-
ساجد حسین واقعہ پر ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان (ایچ آر سی بی) نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ ” ساجد حسین سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم میں رہائش پذیر تھے لیکن وہ اپنی تعلیم اور کام کی خاطر 2 مارچ کو اپسالا شہر منتقل ہوگئے۔ اپسالا پہنچنے کے بعد وہ دن دو بجے تک اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اسکے بعد سے انکے عزیز و اقارب ان سے رابطہ نہیں کرپارہے ہیں۔”
ساجد حسین بلوچ جو کئی ممتاز پاکستانی جریدوں میں کام کرچکے تھے، اپنے جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے 2017 میں سویڈن بطور پناہ گزین منتقل ہوئے تھے جہاں وہ ایک پناہ گزین کی زندگی گزار رہے تھے۔