دیارِ مجرماں
تحریر: حمل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بانک کریمہ بلوچ کی پر اسرار موت کی خبر سننے کے بعد ایک دوست کے پیغام نے ذہن کو منتشر کرکے رکھ چھوڑا ” خیال کرنا اب بلوچ ہوکر جینا دنیا کے ہر کونے میں جرم ہے ” یہ میری حیرانگی اور غم میں بے تحاشہ اضافہ کرگیا، وہ یہ تلخ حقیقت بتا کر نا جانے مجھے بانک کریمہ کیلۓ غم و ملال یا ریاست کے خلاف کچھ تحریر کرنے کیلۓ اکسا رہا تھا؟ مگر میں تو دونوں ہی کر بیٹھا۔ بانک کریمہ بلوچ جو کہ ایک بہادر باپ، نڈر ماں کی، تربت تمپ سے تعلق رکھنے والی ایک بلوچ قوم کی بیٹی تھی، ہاں وہی بیٹی جو اپنے بھائیوں کی لاشوں پر پھوٹ پھوٹ کر رونے کے بجاۓ انکی لاشوں پر پھول برساتے ہوئے یہ کہتی تھی کہ مت رو، شہید تو زندہ ہوتے ہیں، کریمہ بلوچ کی موت پر غم و ملال اور صدمہ یقینی عمل ہے، مگر ان کیلۓ جو کریمہ کی طرح کے مجرم ہوں… ہاں تھی وہ مجرم، جسکا جرم یہ تھا کہ وہ بلوچ تھی، جسکا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنے پیارے بھائیوں جن کو اغواہ، زدوکوب اور شہید کیا جاتا ہے، کیلۓ آواز اٹھاتی تھی، جی ہاں تھی وہ مجرم کہ ہیومن رائٹس کی ایک سرگرم کارکن ہونے کے ناطے معصوم اور نہتے لوگوں کیلۓ پوری دنیا کی لوگوں کو جگانے کی باتیں کرتی تھی۔
مگر کیا پتہ تھا کہ یہاں جگانے والوں کو جلد یا بَدیر ہمیشہ کی نیند سلانے کی بےسود کوشش کی جاتی ہے، اتنی بڑی مجرم کی سزا بھی تو بڑی شہادت ہونی چاہئے نا کہ ایک فوجی کیمپ سے بھاگے ہوۓ ایک بزدل پاکستانی محافظ کی طرح بے نام موت۔
ہاں بزدل ہے ریاست، فوج اور بلوچستان سے باہر بیٹھے لوگ، اقوامِ عالم جو اتنی ظلم کے باوجود فوج کے نام پہ دہشت گردوں اور محافظوں کے نام پہ ظالموں سے ڈرتے ہیں، اب تو ہر وہ معصوم اور بے گناہ شخص دنیا میں کہیں بھی مجرم اور دہشتگرد کہلاۓگا جنکی پیدائش قدرت نے بلوچستان کی سرزمین پر کی اور جنکی رگوں میں خون کی جگہ غیرت، ہمت اور انتقام کا جذبہ ڈال رکھا ہے۔ اب تو پوری دنیا ہی بلوچوں کیلۓ ایک ایسی دیارِ غیر اور جہنم بن گئی ہے کہ ہماری موجودگی کہیں بھی دشمنوں کو گوارہ نہیں۔
مگر کیوں؟ اب انہی نہتے اور اپنی حق کی بات کرنے والے بلوچوں کو مجرم کہہ کر شاید سب سے بڑی غلطی کے درپے ہے۔ کہیں یہ ظلم کی آخری صدی تو نہیں جس میں ظلم پر کئی گھڑیاں بنا لب ہِلے گذر جاتے ہیں؟ اب بندوق نہیں قلم اٹھے گا اور ظالم کو زدوکوب کرکے کچل دیگا۔ انقلابی شہیدوں کی روح کو تسکین بھی اب انقلاب کے سوا کچھ نہیں دے سکتا، یہ داغ، یہ سیاہی اور یہ ظلمت مٹ کر ہی رہیگا جس پر شاید ہزاروں کریمہ اور لاکھوں وحید، حفیظ و حیات بلوچ جیسے بہادر اور جانثار قربان کردی گئی ہیں۔
یہ قربانیاں رائیگاں نہیں، یہ غروبِ آفتاب کی وہ سرخیاں ہیں، جس کے بعد آفتاب بھی دنیا کو روشن نہیں کرسکتا، یہی سرخیاں اور فشارِ خون شاید ریاست پاکستان کی آخری کرنوں کی جھلکیاں ہیں، جو روشن کرنے والی آفتاب نہیں بلکہ آنکھوں کو بوجھل کرنے والی کرن ہیں۔ جنہیں خدا بھی اب اس سرزمین پر روشن ہوتے ہوۓ گوارہ نہیں کرتا، جو اسلام کے نام پر انمِٹ داغ چھوڑ رہے ہیں۔
بانک کریمہ کی طرح ہر فرد (بلوچ) اپنے ساتھ ظلم و جبر کا حساب لینے کے درپے ہے، ہر وہ شخص جو بلوچ کہلاتا ہے یا بلوچ قوم پر جبر مسلسل پر بات کرتا ہے تو اسکا انجام شاید کریمہ، حیات اور نواب بگٹی جیسا ہو کیونکہ یہاں نہ سچ سننے اور نا بولنے والے ہیں، اسلام کے نام پہ بنی ریاست بھی اسلام کی اصولوں سے ناواقف قبضہ گیریت اور نا حق خون ریزی کو اپنا شیوا بناۓ ہوۓ ہیں۔
یاد رہے کہ کئی برسوں سے بلوچستان میں نسل کشی کو مخلتف نام دیکر پروان چڑھایا گیا تھا، جس پر بلوچ مرد و خواتین کو ریاست کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جانے پر مجبور کیا گیا اور اب بیرون ممالک میں بھی دشمن کی قتل و غارتگری کا آغاز پہلے پہل مارچ 2020 میں ساجد حسین بلوچ کی (سویڈن میں اغواء اور قتل ) سے کیا گیا تھا، 20 دسمبر 2020 کو کریمہ بلوچ کی اغواء اور قتل سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی بڑی حیران کن بات نہیں ہوگی کہ پہلے بلوچستان اور اب دنیا کے تمام ممالک کو بلوچ قوم پر تنگ کیا جارہا۔
جہاں بلوچ، وہاں یہ وحشی، ڈرپوک پاکستانی انٹیلیجینس۔ انکی حرکات سے ایک تسکین تو مل ہی جاتی ہے کہ ہماری جدوجہد، اور مسلسل کوششوں نے ان کو ہمارے پیچھے آنے پر دنیا کے ہر کونے میں مجبور کرکے ہی رکھ دیا ہے۔ آزادی نہیں تو اسکی کرن نظر آنی شروع ہوگئی ہے، دشمن پر وار نہ سہی مگر دشمن کو ذہنی اذیت سے دوچار اور ہر جگہ اپنی تلاش میں مارا مارا پھرانا ہی بلوچ قوم کو جیت کی وعید سنا رہی ہیں۔
ہزاروں کریماۓ، حیات و ساجد حسین پیدا ہونگے جو اس سر زمین پر اپنی نذرانے پیش کرینگے مگر آخر یہ اندھیری رات، ظلم کی شام ڈھل جاۓ گی اور بلوچستان بھی ایک کرن افتاب بن کر دنیا کی نقشے پر ابھریگی لیکن اس سے پہلے دشمن کو اپنی جاۓ پناہ ڈھونڈ لینی چاہیئے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ مظلوم، مظلوم نا رہے بلکہ ایک فاتح اور طاقت بن کر ٹوٹ پڑے۔
ہر آنکھ اشک بار اور خون کی آنسوؤں سے لبریز شاید ہیومن رائٹس، یو این اور دیگر تمام انسانیت کی باتیں کرنے والے اقوام سے کریمہ بلوچ کی موت پر ہم آواز بننے کی التجاء کرتے ہیں، بلوچوں پر ظلم کی شام ڈھلنے میں مدد کی التجاء کرتے ہیں مگر کاش ان بہروں کے کان، اندھوں کے آنکھ اور بے زبانوں کے سخن ہوتے تو شاید بلوچ قوم پر کی گئی مظالم کو روکا جاسکتا، اے کاش کہ دنیا ایسی ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں