جدوجہد کے تقاضے – شہیک بلوچ

686

جدوجہد کے تقاضے

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جدوجہد کے تقاضوں کو سمجھنا اب بلوچ قوم کے لیے بے حد ضروری ہے بالخصوص بلوچ جہدکاروں کے لیے جو تحریک آزادی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

اپنے دشمن کو سمجھنا ضروری ہے، نہیں تو ہم غلط اندازے لگا کر نقصانات سے دوچار ہوتے رہینگے۔

ہمارا سامنا ایک منظم مافیا سے ہے، جو ہر طرح کے حرکات کی طاقت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح کے درندگی سے پس و پیش نہیں ہوتا۔
بانک کریمہ کی شہادت پر مجھے بابا مری کا وہ تجزیہ یاد آتا ہے جو انہوں نے نواب بگٹی شہید کے شہادت کے موقع پر کی، جس میں انہوں نے یہ واضح طور پر بتایا کہ ریاست سرکردہ سے لے کر عام کارکن کو ختم کرکے ایک جنریشن گیپ پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ کچھ دہائیوں تک بلوچ اٹھنے سے قاصر رہے۔

اب آپ 26 اگست سے لے کر حالیہ بانک کریمہ کی شہادت تک حالات کا جائزہ لیں تو یہ سب کچھ واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست ایک جنریشن گیپ کے لیے بڑی منظم طریقہ کار سے آگے بڑھ رہا ہے اور موجودہ حالات میں “باجوہ ڈاکٹرائن” کے ذریعے بیرون ملک مقیم بلوچ ڈائسپورا کو مفلوج کرنے کے لیے خوف کا ماحول جنم دیا جارہا ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں بلوچ کی تیاری نا ہونے کے برابر ہے۔ حالات کو سمجھنے میں بلوچ اجتماعی طور پر ناکام رہا ہے کیونکہ دشمن کی طاقت کا غلط اندازہ لگا کر حکمت عملی میں لاپرواہی برتی گئی اور کوتاہیوں کے سبب ہمارے نقصانات زیادہ ہیں۔

بلوچ کے عمل کی صورت میں دشمن کا ردعمل زیادہ وحشتناک ہوتا ہے اور کا نتیجہ ہم استاد اسلم کے شہادت کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن کیا ہم نے نقصانات کے محرکات پر غور کیا ہے؟

مجھے لگتا ہے ہمارا دشمن کے حوالے سے ردعمل جذباتی ہے جس کا فائدہ دشمن بہتر طریقے سے اٹھا رہا ہے۔
افراتفری میں جب ہم ایک ہجوم بن جاتے ہیں تب دشمن اپنا وار کرتا ہے اور ہم مزید منتشر ہوجاتے ہیں۔
تحریک اس بات کا متقاضی ہے کہ دشمن کی اصل طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنی حکمت عملی کو عقلی بنیادوں پر دشمن سے زیادہ بہتر طریقے سے ترتیب دیا جائے۔

طاقت کی بنیاد حکمت عملی ہوتی ہے جس میں خود کو محفوظ رکھ کر دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان دینا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات دیکھیے کہ ہمارے ماسٹر مائنڈ دشمن کے سامنے ہم خود ایکسپوز کردیتے ہیں۔ ہیروازم کا شکار ہوکر ہم انفرادی پروجیکشن کرتے ہیں پھر جس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم خود دشمن کے لیے گول دائرہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں حملہ کرنا ہے اور پھر وہ کر دیتا ہے لیکن اس کے ماسٹر مائنڈز کی ہمیں بھنک تک نہیں لگتی یہی فرق ہے وہ اپنے کردہ کی ذمہ داری تک نہیں اٹھاتے ہین اور ہم سینے پر ہاتھ رکھ کر تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری مثال آبیل مجھے مار کی سی ہے۔

ہم اپنے نقصانات پر غور و فکر کرتے ہوئے غلطیوں پر اصلاح کرنے کی بجائے انہیں گلیمرائز بھی کرتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر جہاں تنظیم کا نام استعمال ہونا چاہیے وہی ہم انفرادی شخصیات کو آگے کردیتے ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم استاد اسلم کو دشمن کے سامنے لاکھڑا کرتے؟ جب ایک مکمل تنظیم ہے تو پھر کیوں ایک فرد کی اہمیت کو دشمن کے لیے واضح کردیا جاتا ہے۔

ٹی بی پی کی رپورٹ میں فدائی حملوں بابت تفصیلی رپورٹ کی کیا ضرورت ہے؟ ہم دشمن کو آگہی کیوں فراہم کررہے ہیں؟
اب اگے اگر بلوچ کو بڑھنا ہے تو انفرادی پروجیکشن کو مکمل مسترد کرنا ہوگا اور جدوجہد کے تقاضوں کوسمجھتے ہوئے مکمل رازداری سے اپنا کام کرنا ہوگا۔ آج کے جہدکاروں کی اولین ذمہ داری اپنی حفاظت ہے کیونکہ جب جہدکار ہونگے تب ہی جہد ہوگی اور جنریشن گیپ کی صورت میں ہماری جدوجہد بہت پیچھے رہ جائیگی۔ دشمن بہت طاقتور ہے، چالاک ہے اور ہمیں اس سے زیادہ ہوشیار رہنا ہوگا۔ اب بلوچ کو بھی ذمہ داری قبول کرنے سے آگے بڑھ کر سوچنااور عمل کرنا ہوگا۔

بلوچ کو ہوشیاری دکھانی پڑیگی، بابا مری کے اس فکر پر عمل کرنا ہوگا کہ ” دن کو عام انسان کی طرح رہو اور رات کو دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑو.”

ہمارے طرف سے ہر عمل کا ماسٹر مائنڈ دشمن کی انگلیوں پر گنا جاتا ہے لیکن دشمن کا کوئی ماسٹر مائنڈ واضح نہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس پر وہ ہم سے سبقت لے جاچکا ہے۔

چائینیز انجینیئرز سے لے کر ایمبسی تک کا ماسٹر مائنڈ کون تھا یہ دشمن کو ہم نے علی اعلان بتا دیا لیکن کیا دشمن نے یہ بتایا کہ استاد اسلم و ساتھیوں سے لے کر بانک کریمہ تک کو شہید کرنے والے دماغ کونسے تھے؟

یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آگے ان غلطیوں کی گنجائش نہ ہو تو بہتر ہے، انفرادی پروجیکشن کی بجائے تنظیم کا نام ہو تو بہتر ہے۔ رازداری کامیابی کی کلید ہے وگرنہ پیج پر آنے کا مطلب ہلاکت ہے۔
دشمن طاقتور ہے لیکن ہم بہتر حکمت عملی سے ہی نقصانات کی شدت میں کمی لاسکتے ہیں۔ ہیروازم نقصاندہ ہے۔ انفرادی پروجیکشن پر مکمل پابندی کی ضرورت ہے۔ gaps پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
مہذب دنیا یا جنگی قوانین جیسے خوش فہمیاں ہمیں یہاں تک لائے۔ ہم اپنی طاقت کو بڑھانے پر غور کرتے تو شاید اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔جب آپ ایک طاقت بن جائنگے تب عالمی دنیا آپ کو خود تسلیم کرلیگی۔ اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے اور ثابت کروانے کے لیے ایک حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

دشمن چالاک ہے مزید وار کریگا لیکن ہمیں ذہنی و نفسیاتی طور پر اسے سمجھنا ہوگا۔ یہ تب ہی ہوگا جب ہم جذبات کی بجائے عقلی بنیادوں پر تجزیہ کرینگے۔ شکست دینے اور شکست کھانے والے کے درمیان فیصلہ کن کردار حکمت عملی کا ہوتا ہے۔ دو طاقتوں میں حاوی قوت وہی ہوتا ہے جو بہتر حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔

بلوچ کو بہتر حکمت عملی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ بہتر حکمت عملی ہی جنریشن گیپ کے امکانات کو روک کر تحریک کو موثر طریقے سے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں