بلوچ قومی کمزوریاں اورکوتاہیاں
تحریر : عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جتنی بھی اقوام رہ چکے ہیں وہ ضرور نہ ضرور ناگزیر حالات و مشکلات سے گزر کر پھر ایک پرامن، پرسکون اور منفرد آزاد و خودمختار مقام پہ پہنچے ہیں، ہر وہ قوم جس نے ناگزیر کیفیات سہہ ہے اس نے ضرور زیادہ طویل عرصہ گزارا نہیں ہے کہ اس نے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو پرکھ کر ان کی اصلاح کرتے ہوئے اپنے لیے بہترین حالات اور مقام کا انتخاب کیا ہے اور دنیا میں ایک منفرد حیثیت ، قدر و معیار کمایا ہے۔ یقیناً اپنے کمزوریوں اور کوتاہیوں کو پہچان کر ان کو دوبارہ کرنے سے نہ صرف گریز کیئے، بلکہ ان کی احساس و رجحان کو بھی اپنے اندر سے جڑ سے اکھاڑ پھینک ڈالے ہیں جن کو وہ اپنی روشن معاشرے اور آزاد حیثیت کیلئے بڑی رکاوٹیں سمجھتے تھے۔
اب میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں میں سے کچھ کی نشاندہی کر دوں جو اقوام ان کی اصلاح کر کے اپنے لیے نئے اور روشن معاشرے قائم کر سکتے ہیں جو دوسرے اقوام نے کرتے ہوئے اپنے لئے دنیا میں مخصوص معیار اور اقدار قائم رکھے ہوئے ہیں۔
قومی عدم اتحاد، قومی عدم برداشت، قومی و علاقائی تعصب جیسے کمزوریاں جو گزرتے اقوام نے نیشنلزم یا کوئی اور نظریے کی بنا پر اپنے اندر سے نکال کر دنیا میں ہر کوئی اپنے ایک مخصوص علاقے میں خودمختار و آزاد حیثیت سے رہ رہے ہیں، حالانکہ ان اقوام کے ماضی میں کوئی لمبی یا طویل تاریخ اور حیثیت نہیں رہی ہے لیکن پھر بھی انہوں نے شاید اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو خوش قسمتی سے جلدی پہنچان کر ان کو تسلیم کر کے خود کیلئے بہتر اور صحیح راستے اپنائے اور آج ہم ان کو الگ آزاد قوم اور آزاد علاقے میں پاتے ہیں۔
بلوچ جو ایک طویل اور ایک وسیع تاریخ رکھنے والی قوم ہے، اگر دنیا میں فی الحال نہیں تو حقیقت میں تو ہے، لیکن حیرت سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک اس نے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو پہچانا کیوں نہیں ہے! کیا وجہ ہے کہ اعلی اقدار اور وسیع تاریخ کے مالک قوم کب سے اب تک اپنے علاقے میں ایک منفرد اور آزاد و خودمختار قوم کی حیثیت سے برقرار نہیں رہا ہے؟ کیوں بلوچ قوم اس سبب کو اب تک پرکھ کر اس کے اثرات قابو پانے میں کامیاب نہیں رہا ہے؟ کون سی وہ شومی ہے جو ایک غیر فطری ریاست ہم پر حاوی ہے ؟ کیا وہ رکاوٹیں رہی ہیں، اور ہیں جو اب تک بلوچ ایک مستحکم قوم و ریاست قائم ہونے میں ناکام ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق اس ناکام کیفیت کے پیچھے جو عوامل ہیں ان میں سے چند بڑے، قومی و قبائلی عدم برداشت، قبائلی نظام اور ان کے خصوصی اقدار و حیثیت، اور قومی و علاقائی تعصب جیسے اور بھی ہیں جو غالبا تب سے اب تک بلوچ لوگوں میں وجود رکھتے آرہے ہیں، بلوچ تاریخ میں دیکھتے ہوئے برسوں سے لے کر آج تک قومی و قبائلی اختلافات و لڑائیاں اور عدم برداشت ہائے روز رونما ہوتے آ رہے ہیں، تاریخ میں زیادہ دور نہیں بلکہ انگریزوں کی زیر تسلط بلوچستان میں قبائل صرف اپنے مفادات دیکھتے تھے اور آج بھی وہی صورتحال پیش نظر ہے، اسی طرح انگریزوں نے ریاست بلوچستان جو اس وقت ریاست قلات کے نام سے زیادہ معروف تھا ، کو جھکانے کیلئے قبائلیوں کو انفرادی طور پر آذادی و خودمختاری دے کر ان کے ساتھ معاہدے کیئے تھے اور قبائل ان معاہدوں پہ رضامند تھے اس لیئے کہ ان کو اپنی اقدار و حیثیت میں وسعت اور مزید اہمیت مل رہا تھا۔ ان کو اپنی انفرادی معیار اقدار اور حیثیت میں وسعت دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔
مورخین کے مطابق، “خانیت، کبھی بھی قبائلیوں سے محصول وصول کرنے کے قابل نہیں تھا، اور نہ ہی قلات سے گزرتے قافلوں سے یکساں لگان لگانے کا نظام ترتیب دینے میں کبھی کامیاب ہوا تھا۔ قبائلی، البتہ اپنی زاتی و انفرادی مفادات پورا کرنے کیلئے انگریز فوجیوں کیلئے قابل اعتبار بن کر ان سے مختلف امدادی سامان فراہم کرتے تھے، یہ اس لیئے کہ قبائل اور دوسرے اعلی شخصیتوں نے نہ صرف خان کو برداشت کیا بلکہ ایک دوسری طرف بھی یہی کیفیت تھی، یہاں ان کی عدم برداشت اور قومی و قبائلی تعصب ظاہر ہوتی ہے، جو عدم اتحاد کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
اپنی اقدار اور اہمیت کو وسعت دینا اور دوسرے انفرادی مفادات کو پورا کروانا اس بات کی دلیل ہے کہ قبائلی نظام نہ صرف اس وقت بلوچستان کی ایک آزاد و خودمختار قوم و ریاست برقرار رکھنے میں رکاوٹ رہی تھی بلکہ آج بھی وہی قبائل پاکستانی سامراج و استعمار پنجابی قوم سے اپنے ذاتی مفادات پورے کروانے کیلئے بلوچستان کا سودا کر چکے ہیں۔
ان کے علاوہ، حالیہ میں نے نصیر دشتی صاحب کی شمس الدین شمس کے “گدان ٹی وی” چینل پہ بلوچستان کی تاریخ کے متعلق ایک انٹرویو میں ، میں نے نصیر صاحب کی ایک بات سے جو قومی تعصب کی انتہا دیکھی تو مجھے بہت تعجب ہوا کہ چند بڑے بلوچ مورخین میں سے ایک جو بلوچستان کے حالات اور تاریخ سے بہتر آگاہی و شعور رکھنے والا اب تک قومی تعصب جیسی وصف رکھتی ہے تو دوسرے عام بلوچوں سے کیا امیدیں رکھ سکتے ہیں! بلوچ قوم جس حالت و کیفیت سے گزر رہا ہے اور قومی و علاقائی تقاضے کیا ہیں اور کیا نہیں اگر نصیر صاحب کو اب بھی یہ علم اور شعور نہیں تو وہ الگ بات ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دوسرے اعلی بلوچ دانشور اور مبصر شخصیتوں میں ایسی متعصبانہ اور عدم برداشت والی صفات موجود ہے اور آگے رہی تو کب تک ہماری حالات کا یہ ناقابل تحریف سلسلہ چلے گی؟
بلوچ قوم کو اپنی مذکورہ بالا سمیت ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کو جو ہمارے لیئے ایک آذاد و خودمختار اور روشن معاشرہ اور متحد قوم بننے میں رکاوٹ رہی ہیں سمجھ کر نہ صرف ان کو تسلیم کریں بلکہ ان صفات اور احساسات کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر اپنے لیئے بہترین نظام اور نظریے کا انتخاب کر کے اس کے مطابق چلنے کی کوشش کریں تاکہ مزید نہ الجھ کر دوسرے اقوام کی طرح ایک بہتر ملک و ریاست اور معاشرہ ترتیب دینے میں کامیاب رہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔