بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، بی این ایم نے ماہ نومبر کی رپورٹ جاری کردی

215

پاکستان نے بلوچ سرزمین کو ایک وسیع اذیت گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ دل مراد بلوچ، مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے بلوچستان کی صورتحال پر نومبر 2020 کا تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ نومبر میں پاکستانی فوج نے بلوچستان کے طول و عرض میں تیس سے زائد فوجی آپریشنوں اور چھاپوں میں 18 افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔ لوگوں پر ہولناک تشدد کیا گیا اور بے شمار گھروں میں لوٹ مار مچائی۔ جھاؤ سورگر اور کیچ کے علاقے گورکوپ میں متعدد گھروں کو نذرآتش کردیا گیا۔ اس مہینے 6 افراد پاکستانی فوج کے ٹارچرسیلوں سے بازیاب ہوکر اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین کو ایک وسیع اذیت گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ اس میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ پاکستانی فوج، خفیہ ادارے اور ریاستی ڈیتھ سکواڈز کی دہشت انگیز بربریت کا واقعہ رونما نہ ہو۔ گذشتہ دو عشروں سے بلوچستان میں انسانی اقدار اور عالمی قانون کی پابندی ناپید ہوچکی ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں سے بربریت کی ایک نئی شکل سامنے آرہی ہے۔ پاکستانی فوج جھڑپوں میں شہید ہونے والے بلوچ مزاحمت کاروں کے لاشوں کو ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے نہ صرف گمنام دفن کر رہی ہے بلکہ فاتحہ خوانی پر بیٹھے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ تمپ، گومازی اور بلیدہ میں شہید ہونے والے بلوچ مزاحمت کاروں کے لاش فوج نے گمنام دفنا دیئے۔ بلیدہ میں شہادت پانے والے شہید اسحاق کے گھر پر فوج نے کئی مرتبہ چھاپہ لگا کر اہلخانہ پر تشدد کی۔ ان کے والد کو فوجی کیمپ منتقل کرکے اذیت کا نشانہ بنایا۔ چند روز قبل ایک چھاپے کے دوران فوجیوں نے دھمکی دی ہے کہ ان کی بیوہ کو لاپتہ کیا جائے گا۔ قریبی دکانداروں کو انہیں راشن فروخت کرنے سے بھی سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ نومبر کے مہینے میں جھاؤ، مشکے، پروم، بلیدہ، مند، دشت مزن بند، کیچ، قلات، خاران اور نوشکی سمیت مختلف علاقوں میں فوجی بربریت جاری رہا۔ مستونگ سے پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء برائے تاوان کے روپ میں بلوچستان یونیورسٹی کے تین پروفیسرز کوحراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ ان میں دو پروفیسرز کو چند گھنٹوں بعد اس لئے رہا کر دیا گیا تاکہ وہ میڈیا اور قوم کو بتا دیں کہ انہیں تاوان کے لئے کسی گروہ نے اٹھایا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کو نامعلوم مقام منتقل کردیا گیا لیکن بلوچ قوم نے ریاست کے اس حربے کو ناکام بنادیا اور تاریخ ساز احتجاج کرکے ریاست کو بے نقاب کردیا۔ اس احتجاج کے سامنے ریاست نے گھٹنے ٹھیک دیئے۔ بلوچ قوم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادیب، شاعر اور دانشور کو رہا کردیا۔

انہوں نے کہا پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کی انتھک کوشش کر رہا ہے لیکن بلوچ قوم کی سیکولر تشخص، روایتی مذہبی رواداری کے پیش نظر ریاست پاکستان کے ایسی مذموم کوششیں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے فوج، خفیہ اداروں اور پراکسیوں کے ذریعے بالخصوص ذکری مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بے شمار واقعات انجام دیئے۔ انہیں قتل کردیا، عبادت گاہوں اور درگاہوں کو نذرآتش کر دیا۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اسی مہینے کیچ کے علاقے گورکوپ میں فوجی بربریت میں پاکستانی فوج نے گورکوپ میں ذکری فرقے کے ”بکسران“ اور”کروچی“ میں زیارتوں کو نذر آتش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ قوم کو آزادی کے تحریک سے وابستگی کے جرم میں اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہا ہے۔ قانون، آئین، انسانی اقدار اور بین الاقوامی قوانین اپنی اہمیت و افادیت کھوچکے ہیں۔ ہر روز بلوچ کا گھر جل رہا ہے، بچے قتل ہورہے ہیں، جوان زندانوں کی نذر ہورہے ہیں، ذلت آمیز زندگی بلوچ کی مقدر بن چکی ہے۔ بلوچ قوم کو یہ بھی احساس ہے کہ غلامی کی ذلت آمیز زندگی میں اس سے مزید ابتر دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ لیکن یہ احساس غلامی بلوچ قومی طاقت کی صورت میں ڈھل چکا ہے۔ اس احساس کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتا ہے۔

نومبر کی تفصیلی رپورٹ درج ذیل ہے:

1نومبر

۔۔۔گوادر سے ملحقہ مشہور پہاڑی سلسلے سائیجی اور دشت کے علاقوں میں بدترین آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے،اس آپریشن میں ہزاروں کی تعداد پاکستانی فوج حصہ لے رہاہے جبکہ زمینی فوج کو گن شپ اور ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں کی کمک حاصل ہے۔

۔۔۔پنجگور کے علاقے پروم پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ علاقے میں بڑی تعداد فوجی دستے پہنچ چکے ہیں۔آپریشن کے زد میں آنے والے علاقوں میں پروم کے میدان اور پہاڑی علاقے شامل ہیں۔

۔۔۔پنجگور کے علاقے گوارگو میں پاکستانی فوج نے فوجی آپریشن کے دورا ن عمر رسیدہ کماش صالح محمد نامی شخص کو تشدد کے بعد جبری لاپتہ کر دیا ہے۔

۔۔۔کیچ آسکانی بازار میں پاکستانی فوج نے شہید اسحاق کے گھر پر چھاپہ مارکر فاتحہ خوانی کے لئے بیٹھے لوگوں کو نہ صرف زدوکوب کیا گیا بلکہ شہید اسحاق کے والد واجہ لال بخش کو حراست میں لے کر فوجی کیمپ منتقل کردیا، تاہم انہیں بعدازاں چھوڑ دیا گیا۔

2نومبر
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں پاکستانی فوج نے آپریشن کاآغازکردیا۔آپریشن کی زد میں آنے والے علاقوں میدانی اور پہاڑی علاقے جن میں سہررودی، لنجی،میانی کلگ اور سری کلگ کے علاقے شامل ہیں،فوجی بربریت کی زد میں ہیں۔

۔۔۔بلیدہ کے علاقے جاڑین اور گردونواح میں فوجی آپریشن کے دوران فورسز نے تین افراد کو حراست میں لیا جن میں فضل، رگام اور عبدالکریم شامل ہیں، آپریشن میں زمینی فوج کے ہمراہ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔

۔۔۔پنجگور سے پاکستانی فوج نے بلیدہ کے نوجوان طالب ثنا ء اللہ ولد دوست محمد کو پنجگور سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔جس کی نام و دیگر تفصیل معلوم نہ ہوسکے۔

۔۔۔ایک سال قبل مند پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے ندیم ولد الہی بخش اور جہانزیب ولد الہی بخش تمپ سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے
3نومبر

۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں دوسرے روز بھی فوجی آپریشن جاری، علاقہ مکمل فوجی محاصرے میں ہے،مختلف علاقوں میں فوج لوگوں پر بے پناہ تشددکررہاہے۔

۔۔۔پنجگور کے علاقے گرمکان میں ریاستی ڈیتھ سکواڈنے ماسٹر عبدالرزاق سکنہ وشبوداوراس نوجوان طالب علم بیٹے نبی بخش کو اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جب وہ گرمکان سے وشبود کی جانب جارہے تھے تاہم والد کو بعدازاں چھوڑ دیا گیا جبکہ بیٹا تاحال لاپتہ کردیا۔

۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں آج تیسرے روز بھی فوجی آپریشن جاری،آپریشن میں پیدل فوجی دستوں کو جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل ہے۔

5نومبر

۔۔۔پروم پنجگور سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں 29 نومبر 2019 کو لاپتہ ہونے والے محمد بلوچ ولد غلام حسین بازیاب ہوگئے۔

۔۔۔نوشکی سے پاکستانی فوج نے ایک نوجوان ریاض جمالدینی کو اس وقت حراست میں لے نامعلوم مقام منتقل کردیا جب وہ دوستوں کے ہمراہ بازار میں بیٹھے تھے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں چار روزشروع ہونے والے فوجی بربریت میں آج پاکستانی فوج نے گورکوپ میں ذکری فرقے کے ”بکسران“ اور”کروچی“ میں زیارتوں کونذر آتش کردیا۔

6نومبر

۔۔۔پنجگور کے علاقے گچک کرک ڈھل سے پاکستانی فوج نے چھاپہ مار کر باپ بیٹے ہارون اورہارون ولد رحمین کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔

۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ سے پاکستانی فوج رشید ولد سردو کو دوران آپریشن حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
7نومبر

پاکستانی فوج نے مشکے کے علاقے نوکجو سے دوران آپریشن طارق ولد بچو کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔

9نومبر

۔۔۔ کیچ کے علاقے ناصر آباد سے28جون 2019کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے عبدالمالک ولد محمد حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔

11نومبر

3نومبر کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے نبی بخش ولد ماسٹر ستار بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔

۔۔۔پنجگور سے ایک ہفتہ قبل پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بولان میڈیکل کالج کے طالب علم نبی بخش ولد عبدالرزاق بازیاب ہوگئے۔

۔۔۔مستونگ سے پاکستانی فوج نے ایک نوجوان رازق بنگلزئی کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے آسکانی بازار سے پاکستانی فوج نے عارف ولدسفر اور لیاقت ولد نورمحمد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔

14نومبر
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں جاری فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج نے دوافرادواحد اور نیاز سکنہ کورِ بازار کو حراست مین لینے کی کوشش کی تو خواتین نے مزاحمت کی، مزاحمت کرنے والی خواتین پر فوج نے بہیمانہ تشدد کی جس سے متعدد خواتین زخمی ہوئے۔

۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ کے پہاڑی سلسلے سورگر میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کاآغازکردیا۔ بیلہ، ارہ اورجھاؤسے پاکستانی فوج ٹرکوں،پیادہ دستوں،اونٹوں اورگدھوں کے ذریعے سے علاقے میں داخل ہوچکی ہے اورزمینی فوج کوٹرانسپورٹ اورگن شپ ہیلی کاپٹروں کی مددحاصل ہے۔

15 نومبر

۔۔۔ مشکے کے علاقے جیبری میں پاکستانی فوج نے دوسگے بھائی یعقوب ولد مرید اور غلام جان ولد مرید کو آرمی کیمپ میں بلاکرحراست میں لے کرلاپتہ کردیا۔

17نومبر

۔۔۔جھاؤ کے پہاڑی سلسلے سورگرمیں جاری فوجی آپریشن میں مزیدشدت لائی گئی ہے، علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مسلسل شیلنگ کررہے ہیں۔

20نومبر

۔۔۔جھاؤ کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن جاری،پاکستانی فورسز بڑی تعداد میں سورگر کے مشہور پہاڑی سلسلے میں پیش قدمی کررہے ہیں جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروازیں اور شلینگ جاری ہے۔

۔۔۔۔کیچ کے مرکزی شہر تربت آسکانی بازار میں شہید اسحاق بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور تمام لوگوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے موبائل کا استعمال ترک نہیں کی تو خواتین کو بھی اٹھایا جائے گا۔

26 نومبر

۔۔۔قلات،خاران اور نوشکی کے درمیانی پہاڑوں سلسلوں شوراور پارودسمیت مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج نے آپریشن کردیاہے۔ریاستی ڈیتھ اسکواڈز بھی فورسز کے ہمراہ ہے۔

۔۔۔کیچ کے علاقے آپسر میں پاکستانی فوج نے ایک بار پھر چھاپہ مارکر شہید اسحاق کی بیوہ کو اغواء کرنے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ قریبی دکانداروں کو سختی سے منع کی ہے کہ ان لوگوں کوکسی نے بھی اشیائے خردونوش کی سامان فروخت کی تووہ اپنے انجام کے خودذمہ دار ہوں گے۔

28نومبر

۔۔۔کچھی کے علاقے ڈھاڈر سے پاکستانی فوج نے گمشدگی سے بازیاب ہونے والے نادر خان ولد حاجی سید خان کو ڈھاڈر سے دوبارہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

۔۔۔مستونگ سے پاکستانی خفیہ اداروں نے بلوچستان یونیورسٹی کے تین پروفیسرز ڈاکٹر لیاقت سنی، شبیرشاہوانی اور پروفیسر نظام شاہوانی کوحراست میں لے کر لاپتہ کردیا،شبیرشاہوانی اورپروفیسرنظام شاہوانی کوچارگھنٹے بعد رہاکردیالیکن ڈاکٹرلیاقت سنی کونامعلوم مقام منتقل کردیا،ان کے گمشدگی کو ریاست نے اغواء برائے تاوان کا رنگ کی بہت کوشش کی لیکن دشمن کایہ حربہ ناکام ہوااورپوری دنیا پر یہ حقیقت آشکارہوا کہ یہ سیاہ کارنامہ ریاست پاکستان کا ہے۔

29 نومبر

۔۔۔کیچ کے علاقے زمران سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں 11اکتوبر 2018 کو لاپتہ ہونے والے نوجوان عبیداللہ ولدغلام رسول سکنہ نوانو زامران بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔عبیدکوفورسزنے شادی کی رات ایک چھاپے کے دوران کیاگیاتھا۔

۔۔۔کچھی کے علاقے ڈھاڈر سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے نوجوان یوسف ولد بنگل خان مری کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔

۔۔۔زامران کے علاقے دشتک اور گردونواح میں پاکستانی فوج نے آپریشن کاآغازکردیا۔اس آپریشن میں فورسزنے
خواتین وبچوں اورمردحضرات کو شدید تشددکا نشانہ بنایا۔

30 نومبر
۔۔۔مستونگ سے لاپتہ ہونے والے پروفیسرڈاکٹر لیاقت سنی بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔ڈاکٹرلیاقت سنی کے جبری گمشدگی کو ریاست نے اغواء برائے تاوان کی رنگ دینے کی کوشش کی لیکن بلوچ عوام کے تاریخی ردعمل نے ریاست کو مجبورکردیا اورانہوں نے شدیدذہنی وجسمانی تشددکے بعد ڈاکٹرلیاقت سنی کو رہاکردیا۔