بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بانک کریمہ بلوچ کو سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی آزادی کی جدوجہد میں بلوچ قوم نے دیارِغیر میں ایک اور فرزند کھو دیا۔ بانک کریمہ بلوچ کا سفاکانہ قتل حکومت کینیڈا، اقوام متحدہ، یورپی یونین، ریاست ہائے متحدہ امریکہ سمیت تمام مہذب اقوام سے شفاف تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا آج میں مہذب دنیا کے سامنے یہ سوال رکھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے سیاسی پناہ کے متلاشی بلوچ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی مسخ لاشیں پراسراریت کے پردے میں لپٹی اسی طرح ملتے رہیں گے، جس طرح نامور بلوچ صحافی اور دانشور ساجد حسین اور بانک کریمہ بلوچ کی لاشیں ملیں؟ کیا بلوچ اس نیتجے پرپہنچیں کہ بلوچ، مہذب کہلائے جانے والے ممالک میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟ کیا ہم یہ سوچنے پرمجبور ہوجائیں کہ پاکستان کی خونخوار ایجنسیاں یورپی ممالک اور کینیڈا جیسے ملکوں تک اپنے خونی پنجے گھاڑ چکی ہیں؟ کیا دنیا اسی طرح دیکھتی رہے گی اوربلوچ اپنے ایک اور فرزند کی باری کا انتظار کریں؟
انہوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ قومی تحریک کی ایک موثر آواز تھی، جس نے بلوچ المیے کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کینیڈا اور یورپ سے لے کراقوام متحدہ اور سول سوسائٹی کے فورمز تک ان کی آواز کی گونج سنائی دیتی رہی۔ جبکہ دشمن کی قہرمانیوں نے آج اس کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم بانجھ نہیں، میرا ایمان ہے کہ ایسی عظیم ہستیاں اپنے عمل و کردار سے اپنا متبادل بھی جنم دیتی رہیں گی لیکن خود ان کی خلا شاید کبھی پُر ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام کی تقدیر اس وقت بدلتی ہے جب انقلابی عمل میں دختران قوم اور فرزندان قوم ہمرکاب بن جائیں۔ عمل مشکل ہے پر انقلاب تو آتش نمرود ہے۔ ایسی مشکلات تو صرف عمل اور فکر سے لیس افراد ہی خندہ پیشانی سے برداشت کرسکتے ہیں۔ اسی بات کا درس بانک کریمہ بلوچ بھی دیا کرتی تھیں۔ جب کوئی تحریک اس حد تک توانا ہو جائے تو ایسے حالات میں مخالف قوت عمل انقلاب کو جو دختران قوم کی بدولت کامیابی سے جانب منزل رواں ہوتا ہے اسے سبوتاژ کرنے میں اپنی تمام تر توانائی سرف کرتی ہے۔ پر تاریخ گواہ ہے کہ جیت ہمیشہ انقلابیوں کی ہوتی ہے۔ آج بانک کریمہ جیسی عظیم ہستی آزادی کی تحریک میں تاریخی کردار ادا کر رہی تھی۔ وہی کردار جس کی گونج ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی اور یورپی ممالک کی تاریخ میں سنائی دیتی ہے، تو دشمن نے وہی نوآبادیاتی ذہنیت کو مزید فروغ دے کر اس آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ بلوچ قوم کے لئے اس عظیم نقصان کی تلافی کیونکر ممکن ہے، یہ سوال ہمیشہ عالمی ضمیر کے سامنے موجود رہے گا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہابانک کریمہ بلوچ نہ صرف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی 53سالہ تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ بنیں،بلکہ بلوچ سماج میں کسی بھی طرز کی سیاسی تنظیم کی پہلی سربراہ کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آتی ہے۔ انہوں نے بلوچ سیاست کو شہروں سے نکال کر دیہی علاقوں تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی کرشماتی شخصیت سے ہزاروں لوگوں کو جدوجہد کی جانب گامزن کیا، بالخصوص بلوچ خواتین کے لئے وہ ایک رول ماڈل تھیں اورہمیشہ رہیں گی۔
انہوں نے کہا بلاشبہ بانک کریمہ بلوچ کی شخصیت بلوچ قوم کے لئے بڑی معتبر تھی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا کردار اور جدوجہد اورکرشماتی شخصیت دنیا بھرکے مظلوموں کے لئے مشعل راہ ہے۔