انقلاب کی بیٹی – میرک بلوچ

433

انقلاب کی بیٹی

تحریر : میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بانک کریمہ کو میں نے پہلی بار ایک مظاہرے کے موقع پر دیکھا تھا، بلوچ نیشنل فرنٹ کے بینر تلے یہ مظاہرہ کراچی پریس کلب کے سامنے منعقد کیا گیا تھا۔ وہ دور انتہائی پر أشوب تھا، اس وقت ہم آئے دن مختلف مقامات پر مظاہرے منعقد کرتے، پریس کانفرنسوں میں جاتے، سیمینار وغیرہ ہوتے۔ مرکزی رہنما و تمام کارکنان انتہائی جوش و خروش کے ساتھ ان کے پروگرامز میں شرکت کرکے اپنے قومی فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس دن اس مظاہرے میں بھی بے پناہ ولولہ و جذبہ تھا۔ بلوچ نیشنل فرنٹ کے پلیٹ فارم سے سارے تنظیموں کی نمائندگی تھی۔ ہم بی این ایم اور بانک کریمہ شہید بی ایس او آزاد کی جانب سے مظاہرے میں شریک تھے۔ مظاہرے کے اختتام پر ہمارے ایک سینئر ساتھی ہمارے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے “آپ میرے ساتھ چلیں تاکہ میں آپ کی ملاقات بانک کریمہ سے کراؤں” میں نے کہا کہ ضروری نہیں کیونکہ بانک کریمہ شہید سمیت ہم سب ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور ہم سب نظریات کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے کامریڈز ہیں لہٰذا دوران جدوجہد کسی نہ کسی موڑ پر ہماری ملاقات اور بات چیت ضرور ہوگی۔

واجہ شھید قائد غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد قابض اور دہشت گرد ریاست نے اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب کرکے قتل و غارت گری کا طویل سلسلہ شروع کردیا۔ ہزاروں بلوچ فرزندوں اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ اور شہید کر دیا گیا، اس لئے تمام ساتھی اور دوست انڈرگراؤنڈ ہونے پر مجبور ہوئےاور متعدد مغربی ممالک میں جلا وطن ہوئے اور ان ممالک میں پولیٹیکل اساٸلم لینے پر مجبور ہوئے۔ بانک کریمہ شہید نے بھی جلاوطنی اختیار کی مگر ہماری عظیم ساتھی نے دوسرے جلاوطن دوستوں کے ساتھ مل کر انتہائی شاندار حکمت عملی سے اور بے پناہ بہادری کے ساتھ مظلوم و محکوم بلوچ اور بلوچستان کی حقیقی صورتحال کو مختلف فورمز پر بے باکی سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

شہید بانک کی شاندار اور ان تھک جدوجہد نے قابض ریاست اور اس کے ظالم رہنماؤں کی نیند اڑا دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہید بانک کو مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی تھیں، مگر بے باک اور نڈر شہید بانک کو اپنے عظیم مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکے۔

شہید کی عظیم جدوجہد نے بلوچ بہنوں میں ایک حوصلہ و جذبہ بیدار کیا اور اسی جذبے کے تحت آج بلوچ بہنیں شاندار جدوجہد میں سب سے زیادہ پیش پیش نظر آرہی ہیں۔ جب میں نے بانک کریمہ کی شہادت کی خبر سنی تو مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا، جب میں کچھ نارمل ہوا تو مجھے اس خبر پر بالکل یقین نہیں آرہا تھا۔ میں بار بار اس کی تصدیق کرتا رہا مگر یہ خبر صحیح ثابت ہوئی کیونکہ بانک کی شہادت کی خبر ساری دنیا میں پھیل چکی تھی۔

مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بانک کریمہ شہید کینیڈا میں سیاسی پناہ میں تھی اور اپنے وطن اور قوم کی ایک مشہور و معروف رہنما تھی، کینیڈا کے حکام سیاسی رہنماوں انسانی حقوق کے نمائندوں اور پارلیمنٹیرین سے مسلسل رابطے میں تھیں۔UNO کے جنیوا اور دوسرے اجلاسوں میں بھی شرکت کر رہی تھی۔ بی بی سی نے شہید بانک کو دنیا کے سو انتہائی مضبوط خواتین میں شامل کیا تھا۔ اس قدر اہم رہنما کو کینیڈا جیسا مضبوط ملک تحفظ فراہم نہ کر سکا؟ اس کی حفاظت نہ کرسکا؟ حیرت کا مقام ہے کہ کینیڈا جیسے اہم ملک میں پاکستان کے ISI کے دہشتگرد بے خوف و خطرہ اپنے گھناونے کاروائیاں کررہی ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟

یہ ایک کھلی دہشت گردی ہے اور ان ممالک کے رہنماؤں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک دہشتگرد ملک اور اس کی دہشتگرد ایجنسیاں ان ممالک کی سرحدوں کو روند کر باقاعدہ حملے کر رہا ہے، یہ تو ان ممالک کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ ہے۔

یہی ممالک اور UNO کسی بھی ملک کی ذرا سی حرکت پر اس کو دہشت گرد قرار دے کر نہ صرف اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف اعلان جنگ کرکے اس پر بمباری کرکے اپنی فوجیں اس ملک میں اتاردیتے ہیں۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے پاکستانی ریاست کھلے عام دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک میں گھس کر بلوچ رہنماؤں کو شہید کر رہا ہے۔ مگر یہ ممالک خاموشی کا روزہ توڑنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اگر یہ ممالک بلوچ قومی آزادی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی حفاظت نہیں کرسکتے تو صاف لفظوں میں بلوچ سیاسی کارکنان کو پناہ دینے سے انکار کر دیں۔

بصورت دیگر یہ ان ممالک کا بین الاقوامی انسانی فرض ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی نہ صرف حفاظت کرے بلکہ دہشت گرد ریاست پر پابندیاں لگا کر بلوچستان کی آزادی کی عملی حمایت کریں۔

شہید بانک کریمہ بلوچ کو سرخ سلام شہید کی شہادت اور خون ضرور رنگ لائے گی بانک کے لہو نے بلوچستان کی آزادی کے دن کو اور نزدیک کر دیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں