امریکہ کا تبتی پالیسی کو قانونی شکل دینا، دنیا کے تمام مظلوم و محکوم اقوام کیلئے امید کی ایک کرن ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ نے جمعرات کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا۔
بشیر زیب بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ بھی چین کے “او بی او آر’ جیسے مکروہ عزائم کا شکار ہیں، جن میں چین کوقابض پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ و دوسرے مغربی اقوام کو بلوچوں کو انکی جائز جنگ میں مدد فراہم کرنی چاہیئے۔ اس خطے میں بلوچ واحد قوم ہے، جو چین کے توسیع پسند عزائم کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔
بلوچستان میں چین کی بہت بڑی موجودگی پائی جاتی ہے، چین نے سائندک میں سونے اور تانبے منصوبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ چین ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کے ایک حصے کے طور پر ملٹی بلین ڈالر کا منصوبہ سی پیک پر بھی کام کررہا ہے۔
بی ایل اے ، جس کی سربراہی اس وقت بشیر زیب بلوچ کررہے ہیں، نے بلوچستان میں چین کی موجودگی کی سختی سے مخالفت کی ہے اور “فوری دستبرداری یا مہلک حملوں کا سامنا کرنے” کا انتباہ جاری کیا ہے۔ بی ایل اے نے پچھلے دو سالوں میں بلوچستان میں چینی مفادات کے خلاف بڑی نوعیت کے حملے کیئے، جن میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر خودکش حملہ سمیت چاغی اور گوادر میں خودکش حملے شامل ہے۔
مذکورہ حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی جانب سے کیئے گئے۔ یہ بریگیڈ خصوصی طور پر خودکش حملہ آوروں پر مشتمل ہے جس کا پہلا حملہ 2011 میں کوئٹہ میں ہوا تھا۔
پیر کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے تبت پالیسی اور سپورٹ ایکٹ (ٹی پی ایس اے) کے تحت قانون پر دستخط کیے تھے، جو تبت کے عوام کی حمایت میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اس بل کو امریکی کانگریس نے ایک ہفتہ قبل منظور کیا تھا۔
نیا قانون تبتی حکومت کے جلاوطنی کی حمایت کرتا ہے اور مرکزی تبتی انتظامیہ (سی ٹی اے) کو تبتی عوام کے جائز نمائندے اور ڈاکٹر لوبس سانگ کو سی ٹی اے کے صدر کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔
سی ٹی اے کو ہندوستان کے دھرم شالا میں قائم “تبت کی منتخب پارلیمانی حکومت” سمجھا جاتا ہے۔ اس کو تبتی جلا وطن حکومت بھی کہا جاتا ہے۔
بہت ساری دیگر انسانی وعدوں کے علاوہ اس ایکٹ میں چینی عہدیداروں کی پابندی بھی شامل ہے اگر وہ تبتی عوام کے اگلے روحانی پیشوا کو مقرر کرنے کی کوشش کریں۔
اس قانون سازی میں کم سے کم 2025 تک تبت کے اندر اور باہر دونوں تبتی انسان دوست اور ترقیاتی امداد کے منصوبوں کے لئے مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔
ٹی پی ایس اے میں یہ شرط شامل ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں کوئی نیا چینی قونصل خانہ کھلنے سے قبل چین تبت کے علاقائی دارالحکومت لہاسا میں امریکی قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دیتا ہے۔
تبتی حقوق کے تنظیموں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ تبت کے لئے واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی مہم نے کہا ہے کہ نیا قانون “اہم علاقوں میں تبتیوں کے لئے امریکی حمایت کو ڈرامائی انداز میں بڑھا دے گا اور چین کے تبتی عوام پر جاری ظلم و جبر کے لئے براہ راست چیلنج ثابت کرے گا۔”