گذشتہ کئی ہفتوں سے افغانستان کے جنوبی صوبے کندھار کے متعدد اضلاع میں طالبان نے بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس کے بعد افغان فورسز نے اپنے چوکیوں سے پسپائی اختیار کی
کندھار کے گورنر حیات اللہ حیات نے رکن پارلیمان کے ہمراہ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو صورت حال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فوجی کمانڈروں سے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر جواب طلبی کی گئی ہے۔
دریں اثناء کابل میں وزارت دفاع کے حکام نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری فوجیں ان علاقوں میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ بین الافغانی مذاکرات کے آغاز باوجود اکتوبر سے ہی افغانستان کے صوبے کندھار میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں جاری ہے۔
کندھار کے گورنر حیات اللہ حیات نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان سکیورٹی فورسز ژڑی، میوند، ارغنداب اور پنجوائی ضلعوں میں 193 چوکیوں سے پسپائی اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر سیکیورٹی چیفس اور افسران جنہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی تھی انہیں برخاست کردیا گیا ہے اور عدلیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب سینیٹر ہاشم الکوزئی اور ایک پولیس افسر نے اے ایف پی کو ان تفصیلات کی تصدیق کی ہے۔
الکوزئی نے کہا کہ افغان فورسز اپنے ہتھیار اور گولہ بارود کے ذخیرے کو بھی چھوڑ کر چوکیوں سے فرار ہو گئیں۔
دوسری طرف افغان فورسز کے اپنے چوکیوں سے پسپائی کے افغان فضائیہ نے طالبان کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور بعض مقامات پہ امریکی ڈرون اور جنگی ہیلی کاپٹروں و طیاروں نے بھی طالبان پہ شدید بمباری کی ہے ۔