احسان نہیں، قومی فریضہ
تحریر: چیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تم رہو یا نا رہو یہ تحریک نہیں رکنے والا، یہاں شعور بیدار ہوچکا ہے احساس جاگ چکا ہے، تمہارے نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تمہارے شعور اور احساس دھندلے پڑ گئے ہیں، جو خود غرضی کی زندگی تم نے چنی ہے یہ ایک بدبودار دریا ہے جہاں سے تمہیں کوئی نہیں نکال سکتا ، بس یہاں ذلت و رسوائی کی زندگی جینا، اس تحریک میں تم جیسے بزدلوں کیلئے کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہاں ایک ہولناک خونی جنگ “جس کی تم سوچ بھی نہیں رکھتے” سے گزرنا پڑیگا اور مادر وطن کے باشعور و باہمت نوجوان ابھی سے اس کیلئے آمادہ ہیں۔
آزادی کیلئے پرخار زندگی اپنانا صرف اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم نے دشمن پر دو تین گولیاں فائر کیں یا کچھ مدت تک متحرک رہے پھر ترک کردیا بلکہ جب تک جان میں جان ہے تب تک جذبہ جنون کیساتھ دشمن کیخلاف ڈٹے رہیں اور آنے والی نسلوں کو غلامی کی ذلت سے بچائیں، اس کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں، تکالیف برداشت کرنا اور دشمن کو شکست دیں یہ ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیئے اس کے برعکس اگر ہم جنگ آزادی کے مشکلات و تکالیف سے خود کو جتنا دور بھگائیں گے اتنا زیادہ ہمیں اور قوم کو غلامی کی ذلت سے گزرنا ہوگا۔
ہمیں جلد نتائج حاصل کرنے والی سوچ سے نکلنا اور مسلسل جدوجہد پر یقین رکھنا ہوگا، ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ ایک آزاد و خودمختار ریاست یا سماج کیلئے قوموں کے نسلوں کو قربانیوں سے گزرنا ہوتا ہے تب جا کر ایک آزاد سماج کا قیام عمل میں آتا ہے، اگر ہم تبدیلی کی تحریک کا حصہ ہیں تو ہمیں اپنے سوچ و اپروچ کے انداز کو انقلابی سانچے میں ڈالنا ہوگا اور مستقل مزاج رہنا ہوگا۔
آج اس تحریک کے لیڈر وہ تمام شعور سے لیس نوجوان ہیں جو اسے صحیح سمت لے جانے کی طاقت اور جرات رکھتے ہیں جو کسی بھی خوف و لالچ کے بغیر محاذ پر دشمن کے منفی عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں، تحریک کے خلاف دوست نما دشمنوں کی بد نیتی کے آگے پہاڑ بن کر کھڑے ہیں، جب تک بلوچ سرزمین کے باہمت و باشعور نوجوان زندہ ہیں دشمن کو ان کا سامنا کرنا ہوگا اور بلوچ باشعور نوجوان کسی بھی خوف کی پرواہ کئے بغیر مادر وطن کیلئے قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔
اپنے تمام تر قابلیت کو اس تحریک میں بروئے کار لائیں اور خود اعتمادی کیساتھ جدوجہد کی راہ پہ گامزن رہیں اور جب یہ تحریک ہم قربانی کا تقاضا کرے تو بلا جھجک قربانی دیں تاکہ تمہارے آنے والی نسلوں پر غلامی کا سایہ نہ پڑے، یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ نئی نسل کا حوصلہ بنیں انہیں ہر طرح کی مشکلات سے ذہنی طور پر تیار کریں انہیں اپنے عمل سے متاثر کریں اور اپنا قومی فریضہ نبھائیں۔
آئیے آج ان مایوسی کے بادلوں کو ٹکرا کر جہد مسلسل کا حصہ بنیں اور اس بات کا اعادہ کریں کہ جب تک سانسیں ہیں اور ہوش و حواس میں ہیں تب تک دشمن کیخلاف مزاحمت کرتے رہیں گے، جو تحریک کے تقاضات ہیں ان پر پورا اتریں گے، ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔