کون کیا ہے؟
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قوم پرستی کیا ہے؟ قوم پرست اقدار کہاں ملیں گی؟ ہم کب سے قوم پرست ہیں؟ قوم کی تشیکل کیسے ہوئی؟ قوم پرست مواد کہاں سے ملے گا؟ قوم پرستی کو سمجھنے کیلیے کیا پڑھنا پڑھے گا؟ کیا ہماری تنظیمیں اورپارٹیاں قوم پرست سیاست کررہے ہیں؟ قوم پرستی کیسے اتحاد کی علامت بن سکتی ہے؟ قوم پرستی کی فروغ کیسے ممکن ہے؟ کیا قوم پرستی دوسرے اقوام سے نفرت کا درس دیتی ہے؟ کیا کبھی عملاً قومی پرستی پر ہم عمل پیرا ہو سکتے ہیں؟ قومی سوال کے حل اور بقاء کی جہد میں قوم پرستی کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ قوم پرستی کیسے طبقاتی تقسیم کی نفی کرتی ہے؟ قوم پرست اقدار کے مطابق، طبقاتی اور منفی سوچ کی نشاندئی اور بیخ کنی کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے دانشور، ادیب، سیاستدان قوم پرستی کی ترویج کیلیے لائحہ عمل رکھتے ہیں؟ کیا سوشلسٹ اور قوم پرست ایک جیسا نظریہ رکھتے ہیں؟ طبقاتی جہد کیوں قوم پرستی کی نفی ہے؟ کیا اتحاد و انضمام قوم پرستی کے بغیر ممکن ہے؟ کیا قوم کو نیشنل ازم کے بغیر متحد رکھا جاسکتا ہے؟ آزادی کے جہد میں قوم پرستی کا کیا کردار ہے؟
فلسفہ سوال ہے اور سوال جواب کو جنم دیتی ہے، فلسفہ انسانی دماغ کے تاریکی میں بند دروازوں پر پڑی زنگ زدہ تالوں کو کھولتی ہے لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ دماغ کو سوچنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے تاکہ دماغ میں سوال پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالات کے حل ڈھونڈھنے کی جستجو پیدا ہو۔ فلسفہء قربانی “الف سے ی تک”۔ تہذیب و تمدن کی داستانوں میں جب بنیادی سوچ و فلسفہ کی بات کیجاتی ہے تو قربانی سرفہرست ہوتی ہے۔انسانوں کی دیوتاوں کو راضی کرنے سے لیکر خوف و خواہشوں تک انسان نے اپنے سوچ و فکر کو قابل قبول بنانے کیلیے قربانی کو موثر جان کر اپنے فکر پر عمل کی داستان رقم کی۔ ایثار اور جذبہ ایثار کے طور طریقوں میں جدت پیدا ہوتی رہی ہے۔ کچھ پانے کیلیے کچھ کھونے کا خیال سماج میں بسے ہر فرد کی زندگی کا حصہ ہیں۔ بچے کی جنم سے لیکر پرورش مکمل ہونے تک ماں اپنے نیند کی قربانی کے ساتھ ساتھ درد سہہ کر انسانیت کو آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اگر ماں قربانی کے فلسفےسے انکار کرتی تو آج زندگی کہاں تک سفر کرتی؟
قدرت کے بے شمار کرشمات پر غور سے پتہ چلتا ہے کہ چرند پرند، انسان حیوان، ستارے، سیارے سب مل جل کر تشکیلِ قدرت بنتے ہیں جن سے سربراہی کا ایک نظام وجود میں آتا ہے۔حیثیت کا تعین ہوتا ہے کہ کون؟ کس؟ انفرادی و اجتماعی کردار کا ہوگا؟ اور کس کو نظام میں مرکزی مقام حاصل ہوگا؟ زندگی کے پرخطر راہوں میں منزل کی جانب رہنمائی کا کردار کون ادا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے؟ کمزور و طاقتور کو یکجاء رکھ کر جینے کا سلیقہ کون بتائے گا؟ حق اور سچ پر ترازوء انصاف کیسے قائم ہوگا؟ انفرادی مفادات سے اجتماعی مفادات کا شعور کیسے پیدا کیا جائے گا؟ ہر زرہ کردار و ذی شعور کو کیسے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر قائل کیا جائے؟ اس جتن کی زمہ داری کو کون نبھا پائے گا؟ ایک آنکھ سے برابری کا نظریہ کیسے پایہ تکمیل کو پہنچے گا؟ اس کار قدرت کو سمجھنے کیلئے قوم پرستی کے بنیاد پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔ تحقیق و تخلیق سے مدد لیکر ان بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔
قوم کی تشکیل کے بننے کے مراحل پر تحقیق کی جائے تو برابری کا نظریہ گروہوں، نسلوں کو یکجا کرکے ایک متحدہ قومی شناخت دیتی ہے۔قوم کی رہنمائی کے کردار وہ قومی لیڈر بنتے ہیں جو قوم پرستی کے نظریہ سے بھرپور ہوکر قوم کو اتحاد و یکجہتی، برابری اور انصاف کے ساتھ ایک لڑی میں پروتے ہیں۔ فرق و تقسیم کی نفی کرتے ہوئے الجھے قومی معملات کو سلجھاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ابھرتے مشکلات و مصائب میں درست سمت میں قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔
“ڈارون کے تھیوری سروایول آف دی فٹیسٹ” کو اگر قوموں کی وجود پر مرکوز کیا جائے تو یہ نظریہ بھی ایک قوم پرست کو حیران کردیگی کہ مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت سے ناآشنا و محروم قوم کی وجود خطرات کا شکار رہتی ہے اور بدلتی دنیا میں مقابلہ بازی کے رجحان نے قومی وجود و تشخص کو مزید ابتر صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ قوم کی روشن و تاریک مستقبل کا زمہ دار قومی لیڈر ہوتے ہیں جو موافق و ناموافق حالات کا جائزہ لیکر حالات و واقعات کے مطابق قوم پرستی کو اجاگر کرتے ہوئے قومیت کو فروغ دیکر مشترکہ و اجتماعی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
بلوچ قوم آج ایکیسویں صدی میں ان اقوام کی صفوں میں شامل ہے جو بیرونی طاقتوں کی پیدا کردہ امپیریل ازم سے نبرد آزماء ہے، وہیں پر درآمدی نظریات کی یلغار سے داخلی طور پر انتشار و خلفشار کا شکار ہے۔
ایک قوم کی اجتماعی مفادات کی جگہ انفردی مفادات نے لی ہے، تقسیم در تقسیم، قوم پرست نظریہ سے نوجوان نسل کی لاعلمی، ریاستی جبر سے پیدا ہونے والی خوف، قومی لیڈر کی ناپیدی سے قومی وجود و شناخت خطرات کا شکار ہوچکی ہے۔بلوچ قومی تحریک کے مختلف مراحل سے گزرتی اس کاروان کی بنیادیں مظبوط قومی نظریہ اور فکر کی آبیاری سے ممکن ہے۔ نظریاتی فکر سے لیس سیاسی کارکن، محنت اور قومی شعور کے ساتھ جذبہ ایثار سے قوم کی رہنمائی کرکے غاصب قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوسکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں