اکتوبر کا سورج قابض فورسز کے ہاتھوں بلوچوں کے لہو کے ساتھ غروب ہوا تو نومبر کا سورج ریاستی فورسز کی تشدد اور جبری گمشدگی کے ساتھ طلوع ہوا۔ مند، تربت، مکران کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز نے شدید آپریشن جاری رکھا۔
ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کیلئے احتجاجی کیمپ میں وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کو 4142 دن مکمل ہوگئے۔ سبی سے نور محمد دیپال بلوچ، حفیظ اللہ خجک، نور محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ اس موقع پر نصراللہ بلوچ اور لاپتہ سیف اللہ رودینی کے لواحقین موجود تھے۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان بھر میں جاری جارحیت، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیئے گئے، بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں نے ان میں شرکت کی لیکن ارباب اختیار میڈیا اور مقامی انسانی حقوق کے اداروں کی کانوں میں ہلکی سی جنبش بھی نہ ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایجنسیوں کی کوشش ہے کہ قتل و غارت گری کے بازار میں بلوچ فرزندوں کے لہو کو بے ثمر کھاتے میں ڈالا جاسکے مگر یہ کسی صورت بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا چونکہ جدوجہد کی خاطر جانیں قربان کرنے والے فرزندوں کے لواحقین اور قوم اپنی شہیدوں کی راہ اور لہو کا ادراک رکھتی ہے۔ بلوچستان کے وارث ضرور ان دوغلی پالیسی والے پارلیمانی افراد کو بے نقاب کرینگے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچ بے شک مظلوم و محکوم سہی، غلام سہی مگر وہ اتنی ہمت رکھتی ہے کہ غلامی کیخلاف آواز بلند کرے۔