بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4136 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی کراچی سے وفد نے رحیم خان کی سربراہی میں کیمپ کا دورہ کیا۔
احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ سیف اللہ رودینی کے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ سیف اللہ رودینی کی بہن فرزانہ رودینی کا کہنا تھا کہ سوراب کے رہائشی سیف اللہ رودینی کو سوراب سے اس وقت پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا جب وہ خضدار میں اپنے سرکاری نوکری سے چھٹی پر گھر آیا تھا۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ سیف اللہ کو 22 نومبر 2013 سوراب کے قریب سے سفید رنگ کے بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑی میں سوار چار افراد نے بٹھایا۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ خفیہ اداروں کے لوگ لگ رہے تھے جبکہ اس حوالے سے ہماری ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی۔
فرزانہ رودینی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس حوالے سے انصاف کے ہر دروازے پر دستک دی لیکن ہمیں انصاف نہیں مل سکا ہے۔ اگر میرے بھائی پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ انصاف وہاں ملتی ہے جہاں انسانیت ہو، حق کی بات ہو، سچائی کا نظام وہاں قائم ہوتا ہے جہاں پر سچائی کا وجود ہو۔ بلوچ قوم کیلئے یہ مملکت جہنم سے کم نہیں ہے۔ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے بلوچ کیساتھ ناانصافی، قتل عام، بلوچ وسائل کی لوٹ مار، تہذیب پر پنجابی یلغار، زبان پر حملہ، تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھیار استعال ہوتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو لاپتہ یا شہید کرنا روز کا معمول بنا ہوا ہے۔ پہلے پرامن جدوجہد کرنے والوں کو مارتے تھے اب ہر عام و خاص کو اغواء یا شہید کیا جارہا ہے۔ بلوچ ہونا، حق کی بات کرنا اس ملک میں ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچوں نے قوم کی خوشحالی کا خواب دیکھا، اس کو حقیقت بنانے کیلئے جدوجہد کی جارہی ہے جس کی انہیں سزا دی جارہی ہے۔