کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لیے احتجاج جاری

98

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4124 دن مکمل ہوگئے۔ نوشکی سے رسول بخش، این ڈی پی کے سی سی ممبر ثناء بلوچ، نعمت بلوچ وار دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچ قبضے کے روز سے ہی لہو لہان ہے مگر جدوجہد کے اس سفر میں سرخ سمندر قوم کی تاریخ کو الفاظ میں پروند کر ایک شکل میں لانے کو بے تاب ہے۔

انہوں نے کہا اکتوبر کا مہینہ بھی گذشتہ مہینوں کی طرح بلوچ فرزندوں کی لہو کی خوشبو کو پھیلاتا ہوا سامراج کی بربریت کی تاریخ رقم کرتا ہوا شروع ہوا۔ دنیا کی طویل خاموشی کے باوجود بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے نعرے کو بلند کرنے کے ساتھ بلوچ قوم کی تکالیف، ریاستی جبر کو میڈیا اور انسانی حقوق کے تنظیموں کو پیش کرکے ریاستی بربریت کا اصلی چہرہ پیش کرتا رہا۔

ماما قدیر نے کہا کہ پاکستانی ریاست انسانی حوق کا علمبردار تھا اور نہ ہوسکتا ہے، جہاں محکوم بلوچ قوم کے ساتھ تمام اقوام کو جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ چکی میں پیسا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچسستان ایک خاص دہشت گرد گروہ جنہیں ڈیتھ اسکواڈز کہا جاتا ہے، کے شکنجے میں ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں ریاستی فورسز کی اپنی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ ملکر بلوچ قوم پر اجتماعی جبر میں اضافہ کیا گیا۔ مشکے، آواران، جھاو، گچک، مند، مستونگ، بولان کے آبادیوں پر آپریشن میں شدت لائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پنجگور سے تربت اور گوادر سے بلوچ ساحل کے آخری سرحد تک مکمل بلوچستان آپریشن کی زد میں ہے۔ گھروں کو لوٹ مار کے بعد جلایا جارہا ہے اور درجنوں فرزندوں کو لاپتہ کیا گیا۔