بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4121 دن مکمل ہوگئے۔ مری اتحاد کے چنگیز مری، معصود مری، نسیم مری، سالار مری، بالاچ مری اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
احتجاجی کیمپ میں موجود انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ کا کہنا تھا کہ راشد حسین کو متحدہ امارات سے لاپتہ کرکے غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا جہاں ان کے منتقلی کی تصدیق کی گئی لیکن بعدازاں انہیں مفرور قرار دیا گیا جبکہ گذشتہ دنوں وفاقی وزیر شیرین مزاری نے اعتراف کیا کہ راشد حسین زیر حراست ہے۔
ماہ زیب بلوچ نے کہا کہ وفاقی وزیر کے اعتراف کے بعد ہم انسانی حقوق کے اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے جواب طلبی کرے کہ راشد حسین کو کس قانون کے تحت زیر حراست ہونے کے بعد بھی عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ راشد حسین کے جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہورہے ہیں لیکن متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی جانب سے انہیں کوئی بھی قانونی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پرامن جدوجہد کرنے والوں کو پاکستانی خفیہ ادارے اور ایف سی کے اہلکار جبری اغواء کرنے کے بعد اپنے ٹارچر سیلوں میں لے جاتے ہیں، وہاں ان پر انسانیت سوز تشدد کے بعد شہید کرکے ان کی لاشیں پھینکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طبقہ تھا جو یہ سب کچھ دیکھ کر آنکھوں کو بند کرنے کی پالیسی اپنانے کو ترجیح دے رہی تھی، حق اور سچائی کے لیے آواز بلند کرنا دور کی بات زبان حق بند کرکے خاموشی اختیار کرکے جان بخشی چاہتے تھے۔ یہاں زیادہ تر دانشور، نام نہاد لکھا پڑھا طبقہ اور سول سوسائٹی بھی خاموش ہے، بند کمروں میں بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم اور جبر کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہے تھے۔
ماما قدیر نے کہا کہ جو موت سے ڈرتا ہے نہ وہ قوم پرست بنتا ہے اور نہ ہی دانشور، سچائی حق کی آواز کو پرامن آواز کو زندہ رکھتا ہے۔ آسائش پرست طبقہ کی طرح زبان بند کرنے کو ترجیح دی گئی مگر ضمیر کو جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔