بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، پشاور سے ٹیکسلا تک تمام بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز کا مرکزی اسٹریکچر ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کی آئین اور بنیادی مقاصد واضح ہیں۔ جس میں بلوچ قومی اجتماعی مفادات میں بلوچ طلباء کی تقسیم در تقسیم پالیسی کی مخالفت، تمام سیاسی نظریات رکھنے والے بلوچ طلباء کو بغیر کسی تقسیم کے ایک پلیٹ فارم کے ذریعے منظم رکھنا، بلوچ طلباء کی ذہنی نشو نماء کے لیے منظم بنیادوں پر غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا، جبکہ تمام تر علاقائی، مذہبی، لسانی تفریق سے بالاتر ہوکر صرف بلوچ کی بنیاد پر طلباء و طالبات کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ کونسلز کے حوالے سے گذشتہ ایک عرصے سے سوشل میڈیا میں منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ بلوچ کونسلز طلباء سیاست اور بلوچ طلباء تنظیموں کے خلاف ہے۔ ہم واضح کرتے چلے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) نہ طلباء سیاست کے خلاف ہے اور نہ ہی طلباء تنظیموں کے خلاف ہیں۔ ہم تمام بلوچ طلباء تنظیموں کا احترام کرتے ہیں۔ پشاور سے لیکر ٹیکسلا تک کے تمام بلوچ طلبہ میں مخلتف سیاسی نظریات اور تنظیموں کے بلوچ طلبہ شامل ہیں لیکن تمام بلوچ طلباء اس بات پر متفق ہے کہ اپنے تمام تر سیاسی نظریات اور تنظیمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے پلیٹ فارم پر بلوچ قوم کے اجتماعی مفادات میں اتحاد و یکجہتی کے خوبصورت ماحول کو منظم کریں گے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) نہ صرف بلوچ طلباء کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے ماحول فروغ دے رہا ہے بلکہ ایک منظم طریقے سے غیر نصابی سرگرمیاں بھی سر انجام دے رہا ہے جبکہ بلوچستان سمیت ملک بھر کے بلوچ طلباء کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے اور ان کے لیے ہر وقت آواز اُٹھاتی آرہی ہے۔
ترجمان نے حالیہ مسائل کے حوالے سے کہا کہ گذشتہ روز بی ایس او نے اسلام آباد میں اپنے تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیکر اسلام آباد میں اسٹوڈنٹس یکجہتی مارچ بی ایس او کی شمولیت کا اعلان کیا۔ بی ایس او کی جانب سے کیے جانے والی یہ عمل بذات خود بلوچ طلباء کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو نقصان پہچانے کا مترادف تھا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) نے اس عمل کی مذمت کی اور بلوچ طلباء کے درمیان کسی بھی قسم کی تقسیم اور آپس میں دست گریبان کی پالیسی سے اجتناب کرتے ہوئے بی ایس سی اسلام آباد کے ذیلی کونسل قائد اعظم یونیورسٹی کے جی بی ممبر (جو بی ایس او ظریف کی مرکزی سیکریٹری جنرل ہے) سے رابطہ کیا اور معاملات کو حل کرنے کوشش کی گئی تھی۔ مذکورہ دوست نے اپنے کونسل کے تمام خدشات اور تحفظات کو دور کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بی ایس او اسلام آباد میں اپنے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرکے اسلام آباد میں طلباء یکجہتی مارچ سمیت کسی بھی قسم کے تنظیمی سرگرمیاں سرانجام نہیں دے گی بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی مفادات میں اپنے تنظیم کی جداگانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بجائے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کی حمایت کریں گی۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) سمجھتی ہے کہ اگر بی ایس او اپنے قول کے پابند رہے گی اور مستقبل کسی بھی ایسے عمل سے اجتناب کریں گی جس سے بلوچ طلباء تقسیم در تقسیم کی شکار نہیں ہوگی تو ہم اس عمل کو سراہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے قول و فعل کے پابند نہیں ہوں گے تو ہم مستقبل میں ایسے اعمال کی مذمت کریں گے اور اس کی روک تھام کے لیے اپنے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) اس امر کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ ہماری بی ایس او سمیت کسی بھی طلباء تنظیم کے ساتھ اتحاد و اشتراک نہیں ہوا ہے۔ البتہ ہم تمام طلباء تنظیموں کی یکساں احترام کرتے ہیں اور ہم تمام بلوچ طلباء تنظیموں سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ اسلام آباد اور گرد و نواح میں بلوچ طلباء کے درمیان موجود اتحاد و یکجہتی کے ماحول کا احترام کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی تقسیم در تقسیم کی پالیسی میں شامل نہیں ہونگے اور نہ ہی ایسی کسی عمل کی حمایت کریں گے۔