کرونا اور تعلیم دشمن پالیسی
تحریر: جی آر مری
دی بلوچستان پوسٹ
تعلیم انسان کی علم و ادبی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی خوشحالی اور ترقی کا نام ہے۔ تعلیم ہی واحد زیور ہے جو ایک حیوان نما انسان کو ایک با اخلاق اور باشعور انسان بنا دیتا ہے۔ تعلیم ہی وہ زیور ہے جو ایک انسان کے کردار کو سنوارتی ہے۔ دنیا میں اگر دیکھا جائے تو ہر چیز بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ہی ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے نہیں گھٹتی بلکہ بڑھ جاتی ہے۔
اگر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے تو وہ صرف علم ہی کی وجہ سے۔ تعلیم انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، غریب ہو یا امیر اور سیاہ ہو یا گورا، سب کو یہ بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پر حاصل ہونی چاہیئے۔ مگر آج کل تعلیم کو حاصل کرنے کا مقصد تعلیم برائے علم وشعور نہیں بلکہ تعلیم برائے بزنس اور ملازمت سمجھ لیا گیا ہے۔
آج اگر تعلیم کی بات کی جائے تو ساتھ میں یہ بھی پوچھ لیا جاتا ہے کہ اس کے بعد کونسی نوکری ملے گی۔ جیسا کہ تعلیم کو صرف ملازمت کیلئے حاصل کیا جاتا ہے۔ جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو اس معاشرے میں نوکر پیدا ہوتے ہیں رہنما نہیں۔ ملازمت کے حصول تعلیم کا ایک پہلو ضرور ہے لیکن یہ “کل” نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہہ نے فرمایا کہ ” جو علم کو دنیا کمانے کیلئے حاصل کرتا ہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا”.
حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین میں تعلیم حاصل کرنے پہ بہت زور دیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید کی رو سے عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے اور عالم کا ساری رات سونا اور جاہل کی رات بھر عبادت پر بھاری ہے۔ ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے اقوام نے ہمیشہ تعلیم ہی کو اپنا زینت بنایا ہے۔
جن اقوام نے تعلیم کو فرض سمجھا ہے وہ دوسروں کی حق تلفی جیسے گناہ سے بچ گئیں ہیں۔ جنہوں نے تعلیم کو زیور سمجھا وہ سنور گئے، جنہوں نے تعلیم کو ہتھیار سمجھا وہ جیت گئے۔ اور جنہوں نے ضرورت بنا لیا وہ کبھی ضرورت مند نہ ہوئیں۔
آج تعلیمی نظام کو اگر دیکھا جائے تو باقی ممالک کی نسبت تعلیم کے میدان میں ہمارا ملک پسماندہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے غریبوں کے بچّے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ لوگ غربت اور مہنگائی کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے زیادہ کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور دوسری وجہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔ ملک میں طلباء و طالبات مدرسوں، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے احاطے کے اندر بھی محفوظ نہیں۔
پاکستانی سیاستدان اپنی سیاست کو لیکر ایسی پالیسیاں بناتے ہیں۔ جن سے ملک میں کمزور معشیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام بھی تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ سال میں کرونا وائرس کی وجہ سے لگا تار آٹھ مہینے تک تعلیمی اداروں سمیت باقی تمام کاروباری شعبوں کو بند کردیا گیا جس سے معیشت کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام پوری طرح درہم برہم ہو گیا۔ کرونا وائرس ایک وباء نہیں بلکہ تعلیم دشمن پالیسی ہے۔
اگر آج ہم پسماندہ ہیں تو اس کا بنیادی وجہ تعلیم کی عدم فراہمی ہے۔ اور یہاں چھوٹی سی وباء آنے کے بہانے ہم نے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کرونا وائرس کی ڈیتھ ریشو صرف دو 2 فیصد ہے جو کہ ایس او پیز کی پابندی نہ کرنے والے لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند کرنے سے کیا ہم کرونا کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟ سب سے زیادہ صفائی اور ایس او پیز کا خیال صرف اور صرف طلبا و طالبات اور اساتذہ کرام کرتے ہیں پھر طلبا و طالبات اور اساتذہ کیلئے کرونا اتنا خطرناک کیوں ؟
آپ کی ٹرانسپورٹ رواں دواں ہے ہسپتالیں کھلی ہوئی ہیں منڈیاں کھلی ہوئی ہیں فیکٹریاں چل رہی ہیں بازاروں میں رونق لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ کرونا وائرس صرف تعلیمی اداروں، مساجد اور مدرسوں کے لیے وباء ہے ؟
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب لندن کے شہر میں ہر سیکنڈ میں بمباری کی جارہی تھی تو اس وقت بھی تعلیمی ادارے تو دور کی بات بلکہ میوزیکل کلب اور سینما ہال تک بھی بند نہیں کیے گئے۔ قانون ساز ایک طبقہ یا قوم کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اون لائین Online کلاسز کی بات کرتے ہیں جو کہ بلوچستان میں آج تک انٹرنیٹ میسر نہیں ہے اگر چند اضلاع میں ہے تو وہ بھی نا ہونے کے برابر ہے۔ آج ایک چھوٹی سی وباء نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرنے پہ مجبور کیا ہے۔ اگر خدانخواستہ کل کو جنگ عظیم اول اور دوئم کی طرح کوئی جنگ ہوئی تو کیا کریں گے؟
ہر قسم کی وباء یا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو اسکا حل نکالا جاتا ہے نہ کہ ملک کو بند کرنے سے وباء کو کنٹرول یا کہ مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ کیا تعلیمی اور دیگر شعبوں کو بند کرنے سے کرونا وائرس ختم ہوگا ؟ اگر نہیں تو کب تک تعلیمی ادارے اور دیگر شعبوں کو بند رکھو گے ؟ اگر کرونا وائرس کی ویکسین بنائی گئی ہے تو استعمال کریں اداروں کو بند کرنے سے کرونا وائرس جیسے وباء ختم نہیں ہوتے۔ اگر ویکسین تیار نہیں کی گئی تو تعلیمی ادارے کھلے رکھیں کیونکہ ویکسین بنانے والے تعلیم اور شعوریافتہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔
طلباء اگر محفوظ ہیں تو کالج اور یونیورسٹیز میں ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں میں رہ کر وہ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہیں۔ گھروں اور بازاروں میں مزید خطرہ ہے کیونکہ وہاں ملنا جلنا زیادہ ہے اور ایس او پیز کا بھی کوئی خیال نہیں رکھتا اگر ہماری زندگیوں کا کوئی پرواہ ہے یا ملک میں ترقی چاہتے ہو تو خدارا طلباء کو پڑھنے دیا جائے۔ طلباء کو چھٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں اگر چھٹیوں سے طلباء و طالبات خوش ہیں تو انہیں صرف کتابیں پڑھائی گئی ہیں نہ کہ علم دی گئی۔ کتابیں پڑھنے اور شعور یافتہ لوگ تعلیم کی اہمیت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں