کامریڈ فریڈرک اینگلز
محنت کشوں کا معلمِ ثانی
(کامریڈ اینگلز کے دو صد سالہ یومِ پیدائش کے موقع پر)
تحریر: مشتاق علی شان
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا بھر کے انقلابی سرمایہ داری، سامراجیت ،قومی جبر اور استحصال کی تمام بھیانک اور نفرت انگیز صورتوں کے خلاف اپنی علمی اور عملی جدوجہد کا وجدان اپنے چار عظیم انقلابی اساتذہ مارکس،اینگلز ،لینن اور اسٹالین سے پاتے ہیں۔ اس فہرست میں کارل مارکس کے بعد دوسرا نام فریڈرک اینگلز کا ہے ۔ 28نومبرکو محنت کش طبقے کے اس معلمِ ثانی کی پیدائش کے دو سو سال مکمل ہوئے جن کا شمار ان دو عظیم المانوی فلاسفر اور نظریہ دانوں میں سے ایک کے طور پر ہوتا ہے جن کی تعلیمات نے انسانی تاریخ کو ایک نئی جہت دی اور اس کی بنیاد پر بیسویں صدی کے سوشلسٹ انقلابات اور قومی آزادی کی کئی ایک تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ دنیائے سیاست میں “مارکس ازم” کی اصطلاح متعاراف کرانے والے اینگلزشہرہء آفاق انقلابی فیلسوف کارل مارکس کے ایک ایسے رفیق اور ہمکار تھے جنھیں اگر ان کا ہمزاد کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔
جرمنی کے شہر ” بارمین“ کے ایک صنعتکار اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے اینگلز نے نیچرل سائنس بالخصوص طبعیات، کیمیا،نباتات اور حیوانات کا علم حاصل کیااور تاریخ کے ساتھ ساتھ لاطینی اور المانوی ادب کی تعلیم حاصل کی ۔ انھیں جرمن کے علاوہ انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، اطالوی ، پرتگیزی ، روسی، ولندیزی ، عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اس کے علاوہ انھوں نے قدیم نارڈک، گوتھک اور سیکسن زبانیں بھی سیکھیں۔ وہ اقتصادیات اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے متمنی تھے مگر والد نے زبردستی انھیں اپنے کاروبار میں لگا دیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والے اینگلز ہاہنے اور شیلے جیسے باغی شعراءسے متاثر تھے اور اس زمانے میں انھوں نے متعدد نظمیں لکھیں۔
اینگلزنے جرمنی کے صنعتی ماحول اور ایک صنعتکار گھرانے میں پرورش پانے کے باوجود اپنے طبقے سے بغاوت کی، عمر بھر محنت کشوں کے ہمنوا رہے اور ان کی نجات کی جدوجہد کو کارل مارکس کے ساتھ مل کر نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ 1941میں لازمی فوجی بھرتی کے قانون کے تحت انھوں نے برلن میں عسکری تربیت بھی حاصل کی۔اس ملازمت کے دوران برلن یونیورسٹی میں انھیں کچھ لیکچرز سننے کا موقع ملا اور وہ اس زمانے کی مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے پیرو” نوجوان ہیگلی گروپ“ سے متاثر ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے اپنے بعد کے رفیق کارل مارکس کے اخبار “Reinisch Zetung”میں مضامین لکھنا شروع کیے اور ان سے خط وکتابت کا آغاز کیا۔
اینگلز کی سیاسی سرگرمیوں سے تنگ آکر ان کے والد نے انھیں1842میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر بھیج دیا تاکہ وہ ان کی فرم میں مصروف رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ کی مشہور مزدور تحریک ” چارٹسٹ“ تحریک “ کی یادگار ہڑتال ختم ہو چکی تھی ۔ اینگلز نے اس تحریک کے سوشلسٹ رہنماؤں سے قریبی تعلقات استوار کیے ۔
برطانیہ میں قیام کے دوران انھوں نے برطانوی محنت کشوں کی حالتِ زار کو قریب سے دیکھا اور پھر اپنی معرکہ آراءکتاب ” برطانیہ میں مزدور طبقے کی حالت“ تحریر کی جو آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک فردِ جرم کی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی وہ کتاب ہے جس میں پہلی بار مزدور طبقے کو ایک الگ شناخت دی گئی ۔برطانیہ میں قیام کے دوران جہاں اینگلز کی مزدور تحریک سے وابستگی رہی وہاں ان کے سوشلسٹ رہنماؤں سے بھی پرجوش تعلقات تھے۔اسی زمانے میں اینگلز نے اقتصادیات کے نظریاتی پہلوؤں کو جاننے کے لیے ایڈم اسمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو، مالتھس اور بنتھم وغیرہ کی تحریروں کا بھی بنظر غائت مطالعہ کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے برطانیہ کے یوٹوپیائی سوشلسٹوں رابرٹ اووین، ٹامپسن،ہاج گرے،برے ،جان گرے اور باربینی کی تحریریں بھی پڑھ ڈالیں جن میں سرمایہ دارانہ نظام پر بھرپور اعتراضات کیے گئے تھے ۔ برطانیہ میں قیام کے دوران اینگلز نے اپنی دوسری اہم تحریر” علمِ اقتصادیات کا تنقیدی جائزہ“ قلم بند کی جس میں پہلی بار سرمایہ دارانہ نظام اور علمِ اقتصادیات کا جائزہ تاریخی مادیت کی روشنی میں کیا گیا تھا ۔ کامریڈ اینگلز وہ پہلے سوشلسٹ تھے جنھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی رشتوں کو پرکھنے کے لیے تاریخی مادیت کے اصولوں کو استعمال کیا ۔ یہی اصول بعد ازاں مارکس ازم کی اساس قرار پائے۔
ستمبر1844میں اینگلز واپس جرمنی روانہ ہوئے تو وہ پیرس بھی گئے جہاں انھوں نے کارل مارکس سے ملاقات کی اور پھر ان کی ایک ایسی رفاقت کا آغاز ہوا، جس کی تاریخ میں کم ہی نظیر ملتی ہے۔جرمنی میں ایک طرف ان کے صنعتکار والد کا اصرار تھا کہ وہ خاندانی کاروبار سنبھالے تو دوسری جانب ایک متحرک سوشلسٹ ہونے کے ناتے جرمن پولیس نے بھی ان کی نگرانی شروع کر دی تھی ۔ سو وہ بیلجیم چلے گئے جہاں برسلز میں انھوں نے مارکس کے ساتھ مل کر فلسفہ سیاست اور عملی سیاست کے متعلق بحث و مباحثے اور مطالعے کے بعد 1846میں ” کمیونسٹ کارسپانڈس کمیٹی“ قائم کی ۔
اسی سال اینگلز پیرس منتقل ہو گئے تاکہ لیگ آف جسٹس میں جرمن کارکنوں کو منظم کیا جائے اور فرانسیسی مزدور طبقے سے روابط استوار کیے جائیں ۔ یہ تحریک طبقاتی تضاد کو اجاگرکرنے کی بجائے محض ” عالمی انسان دوستی “ تک محدود تھی ۔ مارکس ، اینگلز اس سوچ کے خلاف تھے ۔لیگ میں نظریاتی کشمکش نے جب شدت اختیار کی تو لندن میں اس کا ایک گروپ مارکس واینگلز کے نظریات کا حامی تھا ۔ اسی گروپ کی کانگریس نے 1847میں مارکس واینگلز کو اپنے نظریات تحریر کرنے کی ہدایات کی ۔ یوں مارکس واینگلز کی وہ شہرہ آفاق تحریر منصہءشہود پر آئی جسے ” کمیونسٹ مینی فیسٹو“ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل ہے ۔اس کا اوولین ڈرافٹ اینگلز نے ہی تحریر کیا تھا ۔ اس سے قبل وہ مارکس کے ساتھ مل کر 1844میں ” مقدس خاندان“ اور 1946میں ” جرمن آئیڈیالوجی“ تحریر کر چکے تھے۔
اینگلز نے ایک متحرک اور بھرپور زندگی گزاری ۔ وہ پیرس سے جلاوطن کیے گئے تو کولون پہنچ گئے جہاں مارکس کے ساتھ مل کر “New Reinisch Zetung” اخبار شائع کرنا شروع کیا ۔ اخبار پر پابندی لگی تو اینگلز گرفتاری سے بچنے کے لیے سوئزرلینڈ چلے گئے جہاں انھوں نے سوئس سیاست اور یورپ کے انقلابی ابھار پر مضامین تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ مزدور تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔اینگلز بعد ازاں جرمنی اور پھر لندن کارل مارکس کے پاس پہنچ گئے ۔
اینگلزنے مانچسٹر میں اپنے خاندان کی فرم میں کام کرنا شروع کر دیا تاکہ مارکس اور اس کے خاندان کی کفالت کر سکے ۔یہ اینگلز کی مالی امداد ہی تھی جس کے باعث مارکس اپنی زندگی کوانقلابی نظریے کی تحقیق اور عملی جدوجہدکے لیے وقف کر سکے۔ اینگلز نے مارکس کے ساتھ مل کر 1864میں ” انٹر نیشنل ایسوسی ایشن “ بھی بنائی جسے ” فرسٹ انٹر نیشنل “ بھی کہا جاتا ہے۔1873میں جب پیرس کمیون کے انقلاب کو خاک وخون میں نہلایا گیا تو یہ اینگلز ہی تھے جو فرانس کے ان سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی بحالی میں جت گئے جو فرانس سے برطانیہ پہنچے تھے۔
1884میں اینگلز نے اپنی معرکہ آراءکتاب ” ذاتی ملکیت،خاندان اور ریاست کا آغاز “ لکھی ۔اس میں اینگلز ہمیں بتاتے ہیں کہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی سب سے پہلی دین غلامی تھی اور ان غلاموں کو قابومیں رکھنے کے لیے ریاست ، جیلوں ، پولیس، فوج، ہتھیاروں اور عدالتوں کی ضرورت پڑی۔انھوں نے عورتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف بھی توانا آواز بلند کی اور ان کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کی تاریخی وجوہات بیان کیں ۔انھوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ نہ تو عورت ہمیشہ مغلوب تھی اور نہ ہی ہمیشہ غلام ومحکوم رہے گی ۔ یہ اینگلز ہی تھے جنھوں نے عورتوں کی آزادی کی تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ”مجھے یقین ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان برابری اسی وقت سچ ہو سکتی ہے جب سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ان دونوں کے استحصال کاخاتمی کیا جا چکا ہو اور نجی گھریلو کام کو عوامی صنعت میں تبدیل کر دیا گیا ہو ۔کامریڈاینگلز کا شمار ایک طرف اگر مارکس ازم کے بانیوں میں ہوتا ہے تو دوسری جانب وہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف تحریک اورمارکسی نقطہ نظر سے عورتوں کی نجات کی تحریک کے بھی بانی تھے ۔
اپنے علم کے بل بوتے پر اینگلز مستقبل میں دور تک جھاکنے کی زبردست اہلیت رکھتے تھے۔ انھوں نے 1888میں جرمنی کے بارے میں پیشن گوئی کر دی تھی کہ اب عالمی جنگ کے سوا کسی جنگ میں جرمنی کو فائدہ نہیں ہو گا ۔ بعد ازاں دو عالم گیر جنگوں نے اینگلز کی اس پیش گوئی کو حرف بہ حرف درست ثابت کیا۔1892میں ان کے لکھے گئے یہ جملے آج ہی کی دنیا کی تصویر ہے کہ ” جب جنگ ایک ” گرینڈ انڈسٹری“ کا حصہ اور شاخ بن جائے گی تو یہ ایک سیاسی ضرورت بن جائے گی ۔ اس صنعت میں بڑے آہنی جہاز، رائفل نما توپیں ، خود کار توپیں ، خود کار رائفلیں ، اسٹیل کی گولیاں اور بغیر دھویں کے زہریلے سفوف اہم مقام رکھتے ہوں گے ۔“
فلسفے کو تمام سائنس کی روح قرار دینے والے اینگلز نے ایک طرف ” سوشلزم یوٹوپیائی اور سائنسی“،”لڈ وگ فیور باخ“،” فطرت کی جدلیات “ اور ” خاندان ، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ جیسی بنیادی کتابیں لکھیں تو دوسری جانب انھوں نے مارکس کے ساتھ مل کر بھی نظریاتی تحریریں قلم بند کیں ۔ مارکس کی وفات کے بعد ” سرمایہ“ کی باقی دو جلدوں کی تدوین اور اشاعت بھی اینگلز ہی کا کارنامہ تھا ۔”مارکس ازم“ ،” مارکسی“ اور ” نام نہاد مارکسی“ کی اصطلاحات بھی اینگلز نے ہی وضع کیں ۔ ان کے بڑے نظریاتی کارناموں میں تاریخی اور جدلی مادیت کے نظریات کو نکھارنے کے بعد مبسوط و مرتب کر کے پیش کرنا تھا ۔ یہ کارنامہ انھوں نے ” ردِ ڈوہرنگ“ اور ” فطرت کی جدلیات“ نامی کتابوں میں سرانجام دیا۔
کامریڈاینگلز کا ایک اور کارنامہ ” پرولتاری آمریت“ کے خدوخال کو ابھارنا تھا ۔کامریڈلینن کے بقول” اینگلز وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ کہا کہ پرولتاریہ ایک مصیبت زدہ طبقہ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں اس طبقے کی شرمناک معاشی حالت اسے اس امر پر آمادہ کرکے آگے بڑھاتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ بالاآخر اپنا بوجھ اتارنے کے لیے میدان میں اترے۔“
1883میں کارل مارکس کی وفات کے بعداینگلز عالمی کمیونسٹ تحریک کی راہنمائی کرتے رہے ۔ 1889میں دوسری انٹرنیشنل کے قیام کے لیے پیرس میں ہونے والی کانگریس میں اینگلز ہی کی تجویز پر یکم مئی کے دن کو مزدوروں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اینگلز نے 5اگست1895کو لندن میں وفات پائی اور وصیت کے مطابق ان کی لاش جلا کر راکھ ایسٹ بورن کے سمندر میں بہا دی گئی جو ان کی پسندیدہ تفریح گاہ تھی ۔
مارکس اور اینگلز کی لافانی اور بے مثال دوستی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مزید لکھا جاتا رہے گا لیکن روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے والی بالشویک پارٹی کے قائد کامریڈ لینن نے اسے نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے کہ” داستانوں میں دوستی یا ہمدمی کی بعض ایسی مثالیں آئی ہیں جو دل ہلا دیتی ہیں ۔ یورپی پرولتاریہ ( صنعتی مزدور طبقہ) دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا علم دو ایسے عالموں اور جانبازوں کی دین ہے جن کی باہمی رفاقت ،دوستی کے تمام پرانے قصے کہانیوں میں اپنا جواب نہیں رکھتی ۔ اینگلز نے ہر جگہ خود کو مارکس کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا ہے اور عام طور سے وہ حق بجانب ہے۔ مارکس کی زندگی میں جو محبت اینگلز نے دی اور مرنے کے بعد جو تعظیم دی اس کی کوئی انتہا نہیں۔ اس بے باک جواں مرد اور محتاط مفکر کے وجود میں ایک بے پناہ محبت کرنے والی روح تھی ۔“
کامریڈ لینن ہی کے الفاظ میں ” آئیے فریڈرک اینگلز کی یاد میں سر جھکائیں وہ جو پرولتاریہ کا استاد اور زبردست جانباز تھا ۔“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں