ڈاکٹر لیاقت سنی کا جرم
تحریر: امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان ایک ایسی سرزمین کا نام ہے جہاں کے گھنے ساؤں میں بھی دھوپ انسان کو جھلسا دینے کے لئے تیار ہے۔ایسا کوئی جگہ نہیں،ایسا کوئی فرد یا طبقہ نہیں جو اس جھلسادینے والی گرمی سے محفوظ رہے کیونکہ یہ غیر فطری دھوپ خداوند کریم کے حکم کے بجائے چند اداروں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کرکے بلوچستان میں قیامت سا منظر برپا کردیا ہے۔
بچے لاپتہ، طالب علم لاپتہ، ڈاکٹر لاپتہ، وکیل لاپتہ، استاد لاپتہ،خواتین لاپتہ غرض ہر طبقہ فکر کے لوگ ان قاتلوں و ظالموں کے شر سے محفوظ نہیں ہے۔
ان تمام لاپتہ افراد کا جرم صرف ایک ہی ہے کہ وہ شعور اور علم کو ہی قوم کی ترقی کا زینہ سمجھتے تھے۔اسی جرم کی پاداش میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو شہید کردیا گیا ہے۔
کل مستونگ سے بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کو دو ساتھیوں سمیت لاپتہ کردیا گیا۔باقی دو پروفیسرز کو چھوڑ دیا گیا لیکن ڈاکٹر لیاقت سنی تا حال لاپتہ ہے۔
اغوا کاروں نے ڈاکٹر صاحب کو رہا کرنے کے لئے چھ کروڑ روپے کے تاوان کا مطالبہ کیا۔اغوا کار کون ہے اسکی تفصیل میں جانا ضروری نہیں کیونکہ یہ بات کسی فرد سے چھپی نہیں کہ بلوچستان کے عوام کو کس جرم کے تحت اور کون لاپتہ کردیتا ہے۔
اغوا کرنے کا یہ طریقہ نیا نہیں اس سے پہلے بھی اداروں نے بلوچوں کو اٹھانے کے بعد تاوان کا مطالبہ کیا تھا اور اب ایک پروفیسر کو لاپتہ کرکے تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیس کو دوسرا رخ دیکر خود کو بری الزمہ قرار دینا ہے لیکن عقل و شعور سے عاری ادارے اپنے اس گھناونے عمل سے بلوچ قوم کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔
ڈاکٹر لیاقت سنی معاشرے کے باشعور فرد اور علم و زانت سے لیس انسان تھے جنہوں نے معلم بن کر بلوچ قوم کے پولیو زدہ سماج کو ایک نئی زندگی بخشنے کی جدوجہد کی اور علم و شعور کے سفر میں اپنے شاگردوں کی بھرپور رہنمائی کی۔
ایک استاد سماج کے لئے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے حصے کا دیا قوم کو باشعور بنانے کے لیے صرف کرتا ہے جیسا ڈاکٹر لیاقت سنی اور دیگر باشعور استاد اپنے قوم کے لئے مستقبل کے معمار تیار کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
ڈاکٹر لیاقت سنی کے لاپتہ کرنے میں وہی لوگ ملوث ہیں جنہوں نے استاد صبا اور دیگر استادوں کو شہید کیا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ بلوچ سماج بانجھ بنے اور یہاں روشنی کی شمع جلنے نہ پائے۔
ڈاکٹر صاحب اور دیگر طالب علموں کا لاپتہ ہونا ایک المیہ ہے اور اس المیے سے نکلنے کے لئے عوام اور طالب علموں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنا ہوگا کیونکہ یہ صرف ڈاکٹر صاحب کا اغوا ہونا نہیں بلکہ علم،شعور،قلم،کتاب اور سماج کا لاپتہ ہونا ہے جسکے لئے ہر باشعور افراد کو آواز اٹھانا چاہئیے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں