ڈاکٹر لیاقت سنی کا جبری اغواء
ٹی بی پی اداریہ
ہفتہ 28 نومبر کو بلوچستان یونیورسٹی کے تین استادوں کو بلوچستان کے علاقے مستونگ سے نامعلوم مسلح افراد نے اسلحہ کے زور پر روک کر اغواء کرلیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے ان اساتذہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی، ڈاکٹر شبیر احمد شاہوانی اور نظام شاہوانی شامل تھے۔ جو امتحانی مراکز کا معائنہ کرنے خضدار کی جانب عازم سفر تھے۔
تین گاڑیوں میں سوار مسلح افراد نے ابتدائی طور پر تینوں استادوں کو اغواء کرکے اپنے ہمراہ لے گئے تھے، لیکن بعد ازاں انہوں نے ڈاکٹر شبیر احمد شاہوانی اور نظام شاہوانی کو مستونگ کے ایک نواحی قصبے کانک میں رہا کردیا، جبکہ ڈاکٹر لیاقت سنی تاحال لاپتہ ہیں۔
ڈاکٹر لیاقت سنی معروف ماہر لسانیات، دانشور اور متعدد کتابوں اور جریدوں میں شائع تحقیقی مکالوں کے مصنف ہیں۔ آپ ایک تحقیقی جرنل البرز کے مدیر اور بلوچستان یونیورسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ براہوئی زبان پر کیئے گئے انکے تحقیق اور زبان پر انکے عبور کی وجہ سے انہیں بلوچستان کے ادبی حلقوں میں انتہائی پذیرائی حاصل ہے۔
تاہم بلوچستان میں ڈاکٹر لیاقت سنی کی ایک بڑی وجہ شہرت انکی براہوئی زبان میں مزاحمتی شاعری رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان کے بہت سے دانشوروں اور لکھاریوں نے ریاستی خوف و جبر کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی، ڈاکٹر لیاقت سنی اپنی آواز مزاحمتی شاعری کے ذریعے اٹھاتے رہے۔ انکے اشعار “فرق و تقسیم اٹی گم نشان اے ننا” اور “سئیو درد داسکان طاغت ارے” براہوئی ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ ڈٓاکٹر لیاقت سنی کے جبری گمشدگی کی وجہ انکی مزاحمتی شاعری ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ نے ڈاکٹر لیاقت سنی کے جبری اغواء کا الزام پاکستانی فوج پر عائد کی ہے۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جبری گمشدگی بلوچ اساتذہ کے خلاف جاری ریاستی جبر کا تسلسل ہے۔
ڈاکٹر سنی پہلے استاد نہیں ہیں، جنہیں بلوچستان میں جبری اغواء کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان سے پہلے بلوچستان یونیورسٹی کے ایک اور پروفیسر، جو ایک گونجتے مزاحمتی آواز تھے، پروفیسر صبا دشتیاری کو بھی مسلح افراد نے جون 2010 کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ 2012 میں ایک اور استاد نذیر مری اور2014 کو گوادر میں زاھد آسکانی ، خضدار میں پروفیسر رزاق بلوچ سمیت متعدد اساتذہ کو قتل یا جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے۔
بلوچستان کا نظام تعلیم اس خطے میں بدترین ہے، جہاں شرح تعلیم خطرناک حد تک نیچے ہے۔ بلوچستان میں چند ایک ہی یونیورسٹیاں ہیں، وہاں بھی سیکورٹی کے نام پر مسلح فوجی دستوں کی بڑی تعداد تعینات رہتی ہے، جسکی وجہ سے ہر وقت خوف و ہراس کا ماحول رہتا ہے۔ ایسے حالات میں استادوں کو نشانہ بنانا بلوچستان کے نظام تعلیم کو مزید ابتری کا شکار بنارہی ہے۔ اگر بلوچستان میں تعلیم، تعلیمی اداروں اور استادوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نہیں روکا گیا تو اسکے بھیانک انجام نکل سکتے ہیں۔