وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر اور براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر لیاقت سنی کی گمشدگی پاکستانی ریاستی جبر کی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت اس سے قبل بھی بلوچستان بھر میں طلباء اور اساتذہ کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سمیت انہیں قتل کیا گیا۔
ماما قدیر نے کہا کہ ماضی میں ہونہار بلوچ طالب علموں سمیت صباء دشتیاری جیسے اساتذہ کو ٹارکلنگ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بعد اذیت دیکر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی، ان میں اکثریت طالب علموں اور اساتذہ کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت سنی جیسے زبان دوست اور پی ایچ ڈی ہولڈر افراد بلوچستان میں محفوظ نہیں تو دیگر افراد کے تحفظ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ لیاقت سنی کے جبری گمشدگی پر عالمی ادارے فوری طور نوٹس لیکر پاکستانی اداروں سے جواب طلبی کرے۔
خیال رہے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج جاری ہے، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاج کو 4145 دن مکمل ہوگئے جہاں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی۔