چار بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتوں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر کے ترجمان بلوچ خان نے ایک پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک طویل عمل تطہیر سے گذر کر اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ آج بلوچ قوم اور خاص طور پر قوم کے نوجوان تمام نظریاتی ابہام سے نکل کر واضح طور پر سمجھ چکے ہیں کہ من حیث القوم ہمارا اجتماعی مقصد کیا ہے، ہماری قومی بقاء کس چیز میں ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اسلیئے قومی آزادی کے خالص نظریئے سے متصادم و متضاد تمام مصنوعی و جعلی تخلیق کردہ نظریات اپنی موت آپ مرتے گئے اور آج صوبائی خودمختاری، نام نہاد مرکزیت کی پارلیمانی سیاست کرنے والوں سے محض چند عناصر فقط اپنی ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے جڑے ہوئے ہیں۔ ذات و گروہ سے بڑھ کر ان عناصر کی فکری، جماعتی و قومی کوئی وقعت باقی نہیں بچی ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچ قومی آزادی کی فکر اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ قوم جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے نہیں ہچکچاتی، ہزاروں شہید و لاپتہ ہونے کے باوجود قوم کے پیروجوان اس نظریئے کی حفاظت و پرچار اپنی جانوں کی قیمت پر کررہے ہیں اور اس قافلے کو بڑھارہے ہیں۔
بلوچ خان نے مزید کہا کہ اپنی گھٹتی ہوئی مقبولیت اور نظریاتی لایعنیت و غیرمتعلقیت کو دیکھ کر ان پارلیمان پرست جماعتوں نے قوم سے ایک جعلی تعلق قائم رکھنے کیلئے، مسائل کو بغیر سیاق و سباق و نظریاتی تشریح کے اٹھانا اور اچھالنا شروع کردیا ہے تاکہ وہ کسی طور اپنا وجود قائم رکھ کر متعلقہ رہ سکیں۔ ان مسائل میں لاپتہ افراد اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن و قتل و غارت کے مسائل سرفہرست ہیں۔ یہ پارلیمانی جماعتیں مذکورہ مسائل کو اٹھاتے، ان پر بیانات جاری کرتے، جلسے جلوس کرتے اور ووٹ مانگے ہیں لیکن وہ یہ بیان نہیں کرتے کہ بلوچوں کو جبری گمشدگی کا مسئلہ اسلیئے پیش ہے کہ قوم کی اکثریت قومی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے اور اپنے اس قومی مطالبے کیلئے جدوجہد کررہی ہے، جبری گمشدگیاں اسلیئے درپیش ہیں کہ قوم پر ایک قابض فوج کا یلغار ہے اور فوجی آپریشنیں و قتل و غارت براہ راست بلوچستان پر قبضے کا نتیجہ ہیں اور جب تک یہ قبضہ قائم ہے، بلوچستان میں قتل و غارت کا راج رہے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ان پارلیمانی جماعتوں کا وجود جس نظریاتی تضاد پر قائم ہے، یہ تضاد انکے کردار و عمل میں بھی واضح ہے۔ پاکستانی فوج کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے گندے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کردار تخلیق کرتا ہے اور جب ان سے کام نکال لیتا ہے تو ان کا صفایا کردیتا ہے، ایسے ہی ایک کردار ملا عمر تھے، جنہیں گذشتہ دنوں کیچ میں طویل عرصے تک استعمال کرنے کے بعد فوج نے قتل کرکے خود ٹھکانے لگا دیا۔ ملا عمر ایک ایسے ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی کررہے تھے جو باقاعدہ بلوچ آزادی پسندوں کے قتل و اغواء میں ملوث رہا ہے۔ انکا ڈیتھ اسکواڈ نے کم از کم 25 بلوچ فرزاندان کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کرچکا ہے۔ جس کی فہرست درج ذیل ہے۔ 1 ۔ کمال کہدائی ولد کہده موسیٰ / پیدارک 22/03/2014 2- صوفی باہوٹ ولد پیر محمد / سری کلگ 23/09/2014 3. شجاعت الله ولد نعمت الله / درمکول 30/01/2015 4. حسن ولد ظہور ( عمر 5 سال ) / پیدارک 5. جاوید ولد پیر بخش / درمکول 12/06/2015 6. داد بخش / شادی کور 01/10/2015 7. فيصل ولد افضل / درمکول 01/10/2015 8. خدا بخش ولد پھلان / پیدارک 9. مقبول ولد میار / جمک 10. غوث بخش / جمک 29/09/2014 11- واحد ولد صوالی در مکول 21/10/2014 12- واهگ ولد هداداد سکنہ بچکول 13. فولات سکنہ شادی کور 14. مراد حاصل ولد درویش / درمکول 22/03/2014 15. اسلام ولد مراد حاصل / درمکول 22/03/2014 16. اکرام ولد مراد حاصل / درمکول 22/03/2014 17. سمير ولد نصیر کمالان / پسنی 22/03/2015 18. شبیر عرف عزت بلوچ / گورکوپ 05/07/2015 19. کریم جان / گورکوپ 05/07/2015 20. جمیل عرف کیا ولد شکاری امین / پیدارک 09/03/2018 21 ولی محمد ولد شکاری یوسف / سولانی 23 / 09/2014 22- سفر خان / سری کلگ 09/03/2018 23۔ منیر بلوچ 09/03/2018 24. حكیم بلوچ 09/03/2018 25. نسيم ولد جان محمد / جمک 03/04/2014۔۔
اس کے علاوہ ملا عمر کا گروہ ابتک درجنوں بلوچ سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرچکی ہے۔ لیکن مذکورہ پارلیمانی جماعتیں ایک جانب اسی ٹارگٹ کلنگ پر سیاست کررہی ہے اور انہی لاپتہ افراد پر ووٹ مانگتی نظر آتی ہیں، دوسری جانب انکی علاقائی لیڈرشپ ملاعمر کی قتل کی مذمت کررہی ہے، اور انکے گھر ہمدردی جتانے جارہی ہے۔
بلوچ خان نے مزید کہا کہ یہ وہی جماعتیں ہیں، جو بلوچوں کے قاتل شفیق مینگل سے انتخابی اتحاد کرتے ہیں، پھر اجتماعی قبروں کے خلاف بات بھی کرتے ہیں۔ سانحہ ڈنک پر مذمتی بیانات جاری کرتے ہیں، لیکن قاتلوں سے انکی آشنائی بھی ہے۔ بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں کون ملوث ہیں یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں، بند دروازوں کے پیچھے یہ ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں، بلوچ کے خون کی سودے بازی پارلیمانی نشستوں کے بدلے کرتے ہیں لیکن پھر پی ڈی ایم وغیرہ جیسے اسٹیجوں پر جاکر ان لاپتہ افراد کے سر پر اپنی سیاست بھی چمکاتے ہیں۔
بلوچ راجی آجوئی سنگر قوم کے سامنے ان عناصر و کرداروں کا اصل چہرہ و مقاصد واضح کرنا چاہتی ہے۔ پارلیمان پرست جماعتوں کا پرتضاد کرداروعمل قومی دھوکہ دہی ہے۔ بلوچ قوم کا مسئلہ انتہائی سادہ ہے، ہماری سرزمین پر اغیار نے فوجی جارحیت سے قبضہ کیا ہوا ہے، قبضہ کرکے ہماری سرزمین کو تقسیم کیا گیا ہے اور ہمارے وسائل کو لوٹا جارہا ہے۔ اس قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے ہماری قتل عام کی جارہی ہے۔ یہ قتل عام، جبری گمشدگیاں، استحصال و تقسیم قبضے کا ماحصل ہیں۔ جب تک ہم قابض فوج کو شکست دیکر اسے اپنی سرزمین سے نکلنے پر مجبور نہیں کرتے، تب تک یہ سلسلہ تھمے گا نہیں۔ اگر کوئی بھی شخص، جماعت یا نظریہ مسئلے کی بنیاد جبری قبضے کو نظرانداز کرکے اس سے پیدا شدہ مسائل قتل عام، جبرگی گمشدگیوں اور استحصال کے روکنے کیلئے دوسرے تجاویز پیش کرتا ہے، اور انکے اوپر اپنی سیاست کی بیساکھیاں کھڑی کرنا چاہتا ہے، وہ دشمن کے سازباز میں دانستہ یا نادانستہ شریک جرم ہے۔