نومبر سے بےشمار قربتیں – کوہ دل بلوچ

170

نومبر سے بےشمار قربتیں

تحریر: کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

یوں تو دیوانگی کا یہ پیمانہ ہیکہ جہاں چار پل حسین گذریں، یا پھر بہت کٹھن تب وہ وقت ہمیشہ کیلئے دل میں بس جاتا ہے اور پھر جانے کا نام ہی نہیں لیتا، دیوانگی، رومانویت، عشق اور محبت یہ چیزیں اگر کسی بلوچ میں نہ ہوں تو شاید شہ مُرید اُسے نظر انداز کردے اور مستیں توکلی اُسے اپنے شعروں میں شمار نہ کرے، ان فطری چیزوں کا ہم میں شمار ہونا ہی ہمیں مہربان کاروانوں میں شمولیت کا موقع فراہم کر دیتا ہے، ورنہ حانیوں کا اور سمو بیلیوں کا داستان کیسے مکمل ہوگا؟

قربتیں بھی عجیب ہوتے ہیں، زمین سے عشق، سمو سے بے انتہا محبت اور اپنے قوم کیلئے بےدریغ قربانیاں آخر شہادت اور پھر ابد کا امر ہوجانا، ایسےانسان شاید بہت کم ہوں، جو دیوانگی کی حدیں پار کرکے پھر کسی اجتماعی فکر پر روانہ ہوکر لہو سے گلِ لالہ کو سُرخ کردیں، اور خود آسمانوں میں اُڑان بھریں، جو ناختم ہونے والا پرواز ہو یا مست کی طرح سب سے الگ ہوکر دھرتی ماں سے بات کرتے کرتے اُس کے آغوش میں سکون کی نیند میں ہمیشہ کیلئے چلا گیا ہو.

اسی طرح نومبر سے میرا فکری، نظریاتی، رومانوی اور سیاسی رشتہ ہے، 13 نومبر عظیم قربانیوں کی یاد تازہ کرکے جذبہِ ایثار کیلئے ہمیں بیدار کرتا ہے، ہمیں عظیم سیاسی اور بہادر کرداروں کی شہادتیں شعور بخشتے ہیں، شہداءِ بلوچستان کا یومِ شہادت ہر بلوچ شہید کے خون کی چھینٹوں سے مصورِ آزادی کا عکس رنگین کرتا ہے، بلوچ شاعروں کے سُرخ تشبیہات بلوچستان کو شہیدوں کا وطن قرار دیتے ہیں اور بلوچ دانشوروں کے محفل میں بہادر سپوتوں کے نثار ہونے کا ذکر شامل کئے بغیر مجلس اپنا حقیقی رنگ کھو دیتا ہے. ایسا بلوچستان میں کوئی شہر، کوئی گاؤں نہیں جہاں کاروانِ آزادی کے متوالوں کا تذکرہ نہ ہو.

میرے محبت کے قلعے کا تعمیر نومبر میں ہوا اور اسی نومبر میں میرے محبت کے چراغ بھی گُل ہوگئیں اور پھر اسی نومبر نے بلوچ شہادتوں کی گواہی دے کر ہمیں شعوری فیصلوں پر آمادہ ہونے کی تلقین کی، ہمیں محدود سرحدوں سے نکل جانے پر مجبور کردیا اور ہمیں محبت کے میدان سے عشق کے کوہساروں پر چلنے کی جو روش نصیب ہوا ہے اس کا اعزاز صرف بلوچ شہیدوں کے نام جاتا ہے، لوگ جو احساس سے محروم خود کو رکھے ہوئے ہیں اُن کیلئے دیوانگی، دھرتی سے عشق اور محبوبہ سے محبت فضولیات کے حامل ہیں “لیکن نمازی کو کیا خبر کہ مجنون کس ڈگر سے گذر کر اپنے لیلی کی تلاش میں ہے”، مری بلوچوں کو کیا احساس کہ مست سمو کے ساتھ کہاں محبت کیلئے سیمینار منعقد کررہا ہے، چاکر کو کیا پتا کہ کٹے ہوئے سر اور بےجان دھڑوں کے بغیر بھی محبت کے اینٹوں سے مضبوط قلعوں کی تعمیر شہ مُریدوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں، کیچ کے روایتی قبیلوں کو کیا خبر کہ سسی صحرانوردی کو اپنی محبت کا تاج بنا دے گی.

دنیا چاہے جتنی بھی اپنے آنکھوں پر سیاہ پٹی چڑھا دے وہ دیوانوں کی منزل رسائی سے خود کو اندھا نہیں رکھ سکتا.

نومبر کی سرد ہوائیں جب شال چلتن سے ٹکرا کر آماچ سے ہوتا ہوا بولان سے بغلگیر ہوکر شورپارود میں چند روزہ پڑاؤ کے بعد ہربوئی سے مراسم نبھاتا ہوا زہری بلبل، مولہ باغبانہ، خضدار کو شہیدوں کے لہو کی خوشبو سے مہکاتا ہوا بسیمہ، مشکے، شاشان کو بخیر کے بعد شہیدوں کے سنگر آواران میں چند روز گزار کر ایسے پھیل جاتا ہے جیسے شریر میں خون دل میں جمع ہوکر پھر ہر طرف رگوں میں دوڑ کر جسم کو قوت بخشتا ہے اسی طرح نومبر کی ٹھنڈی اور مدہم ہوائیں بلوچستان کے چارسو منقسم ہوکر بلوچ شہیدوں کی یادیں تازہ کرتی ہے، جبکہ میرے لئے نومبر کا ہر دن بشام کا برستا ہوا برسات ہے، امبر پر خوبصورت قوس و قزاح ہے، جس کے ہر رنگ میں عشق و محبت اور عظیم قربانیوں کا پیغام واضح ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں