نظم وضبط اور اصولوں سے مفقود ادارے
تحریر: عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر ادارہ بہترین انداز میں قائم رہنے کیلئے اصولوں اور نظم و ضبط پر مشروط ہوتا ہے، یعنی ہر ادارے کے رہنما کو اپنے ادارے کو بہتر سے بہتر طریقے سے چلانے کیلئے اصولوں و ضابطوں پر استوار مطلوبہ ادارے کے خاکے کے مطابق چلنا اور پابند ہونا چاہیے ہوتا ہے۔ ہر ادارہ چلانے والا جو اپنے اصولوں کے خلاف جاتا ہے یا ان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو نہ صرف وہ ادارہ اپنے مقصد میں کمزور ہوتا ہے بلکہ ناکامی کے اثرات پاتا ہے۔ یہ سب میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایسا اکثر نہیں بلکہ زیادہ تر اوقات میں ہو چکا ہے۔
اکثر میں نے دیکھا اور سنا ہے کہ بلوچ آزادی کی مسلح تحریکیں اپنے اندر ادارے ہوتے ہیں، یہ ادارے اور تنظیمیں نظم و ضبط سے مفقود اور اپنے اصولوں پر پابند نہیں نظر آتے۔ یہ حقیقت غالبا ان اداروں اور ان سے جڑے افراد یا جنگجوؤں کو کڑوا لگے گی لیکن کسی چیز کی اصلاح کیلئے تنقید کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
اپنی سمجھ اور صلاحیت سے جو میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ یقینا عملی تجربے تو نہیں ہیں لیکن کبھی کبھار ساتھ بیٹھنے اور چند باتیں سننے سے میں نے یہ تجربہ کیا ہے کہ بعض جنگجوؤں میں بہت سی ایسی خامیاں و کمزوریاں ہیں جو تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بن چکے ہیں اور اگر یہی کیفیات قائم رہے ان میں تو مزید صرف کمزور نہیں بلکہ ناکامی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں، یعنی متعصبانہ انداز و رویہ اختیار کرنا، ایک دوسرے کی قدر نہ کرنا, دو یا تین سال سے آنے والا ساتھی آکر کسی دس یا بارہ سال سے جڑے ساتھی کو نہ صرف قدر نہ دینا بلکہ شعوری طور پر اپنے کو بالاتر سمجھ کر اس کو ہر بات پہ طعنہ دینے اور تنقید کرنے کی کیفیت بھی نظر آتا ہے ان میں جس کی وجہ سے سینئر ساتھی مایوسی کا شکار ہو کر دستبردار ہونے پر مجبور ہوتے ملے ہیں اور آگے بھی ملیں گی جس طرح میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اگر یہ انداز و مزاج رہا تو۔
ان کے علاوہ میں آپ کو بتا دوں کہ آج کل عام بلوچوں میں نسلی و قبائلی تعصب بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ملتا ہے خاص طورپر طلبا و طالبات میں لیکن دوسری طرف جو لوگ بلوچ مرکزی کاز (main cause) کیلئے لڑ رہے ہیں ان میں چند لوگوں کو متعصب دیکھا ہے میں نے، جو مجھ سمیت کچھ لوگوں کےلئے بہت افسوس کی بات ہے۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے اصل مقصد کیلئے جہد میں برسرپیکار ہیں ان میں ہر صفت و صلاحیت کسی عام شخص سے بہتر و بالاتر ہو کیونکہ بلوچ قوم ایسی امیدیں اول ان جہدکاروں سے کرتا ہے کہ ان میں متعصبانہ انداز نہ ہو، ایسے صفات و رویے نہ ہو جن سے عام بلوچ جو جہد میں حصہ لینے کے خواہشمند ہوں وہ پہلے سے مایوس ہو کر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں، اور دوسری بہت سی تنظیمی اعمال انداز اور رویے ہیں وہ قوم کی امیدوں کے مطابق ہوں۔ ایسے خصوصیات ان جہدکاروں میں نہ صرف تحریک یا اپنے مقصد کیلئے جدوجہد کوکامیابی کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ امیدیں وابستہ کرنے والے دوسرے لوگوں میں بھی منفی اثرات نہیں پڑنے دیتے۔
رہی بات نظم و ضبط اور اصولوں کی جو ان بلوچ مسلح اداروں کو اپنانا چاہیے، ایک منظم و اصولوں پر مبنی ادارے کی طرح جو قانون و ضابطوں پر استوار ہو ان کا بھی ادارہ و تنظیم قائم و برقرار ہونا چاہیے۔ ایک فوجی ادارے کی طرح جو اپنے سینیئر و ذمہ دار کے تابع و فرمانبردار ہو۔ لیکن یہ نہیں کے سینیئر اپنے اونچے عہدے کا فائدہ اٹھا کر اپنے دوسرے ساتھیوں پہ رعب جمائے یا ناجائز زمہ داری و کام دے کر خود احساس بالاتر کا شکار ہو۔ ہر ساتھی نظم و ضبط اور اصولوں کے پابند اور مطابق ضرور ہو لیکن چونکہ یہ قومی بقا و آزادی کی جنگ ہے تو باہمی اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کےلئے انتہا دوستی و محبت، نسل پرستی و نسلی تعصب کا شہ و خیال نہ ہونا اور سب سے اہم جو ہے وہ صبر و برداشت کی خصوصیات ساتھیوں میں پائے جائیں یا اگر نہیں تو پیدا کر لینی چاہئیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اس سے نہ صرف ساتھیوں و جنگجوؤں میں مایوسی پیدا نہیں ہوگی اور دستبردار ہونے پر مجبور نہیں ہونگے بلکہ تحریک ایک منظم طریقے سے کامیابی اور اپنے مقصد کے حصول کی طرف گامزن بھی ہوگا۔ دشمن ویسے بھی پہلے سے مختلف حربے اور پروپیگنڈے استعمال کر کے ساتھیوں میں آذادی کے جذبات ختم کرنے کی کوشش کرتا اور ان کو مایوسی کا شکار بناتا آرہا ہے۔ اب کم از کم دشمن کو مزید اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرنے کا موقع نہ دیں اور مسلح تنظیموں سے جڑے ساتھیوں کو شعوری سے کام لے کر اپنے اور تحریک کو منظم و مستحکم کرنے کےلئے اپنے ادارے کو نظم و ضبط اور اصولوں پر استوار کرکے ان کے پابند ہو کر چلنا چاہیے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔