بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے نئی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کالجز کے لیے نئی پالیسیوں کا اجراء تعلیم دشمن پالیسیوں کے زمرے میں آتا ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔ بولان میڈیکل کالج سمیت صوبہ کے دیگر میڈیکل کالجز میں پروفیشنل نشستیں نہایت ہی کم ہیں لہٰذا ان نشستوں میں جلد از جلد اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی کے تحت میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے 120 نمبر حاصل کرنے اور ایف ایس سی میں شرح مارکس 65 فیصد رکھی گئی ہے۔ مذکورہ پالیسی کا اجراء مخصوص علاقوں کو زیر نظر رکھ کر اپنایا گیا جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے طالبعلم تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے سے قاصر رہیں گے۔ اس طرح کے پالیسیوں کا بنیادی محرک پسماندہ علاقوں کے طالبعلموں کے لیے تعلیمی دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے پالیسیوں کے اجراء تعلیم دشمن پالیسی کے زمرے میں آتا ہے جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بولان میڈیکل کالجز سمیت مکران، جھالاوان اور لورالائی کے میڈیکل کالجز میں پروفیشنل نشستیں ناکافی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں طالبعلموں کو تعلیمی مواقع ملنے سے قاصر ہے۔ ان میڈیکل کالجز میں جلد از جلد نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔ بی ایم سی کی نشتیں جوکہ اس وقت 223 ہیں انہیں بڑھاکر 350 کی جائیں جبکہ بی ایم سی میں بی ڈی ایس کی نشستیں 35 سے بڑھاکر 50 تک مقرر کی جائیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر میڈیکل کالجز کی نشستوں کو 50 کے بجائے 100 تک مقرر کی جائیں اور مذکورہ کالجز میں فوری طور پر ڈینٹسٹ کا شعبہ قیام عمل میں لایا جائے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج کے وائس چانسلر نے کئی عرصے سے پرنسپل کے آفس پر قبضہ کیے رکھا ہے لہٰذا وائس چانسلر کو جلد از جلد فارغ کرکے پرنسپل تعینات کی جائے۔ میڈیکل کالجز کے حوالے سے گذشتہ ایڈمیشن پالیسی کو جلد از جلد بحال کیا جائے اور کالجز کے نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔