مہراب اپنا جنم دن نہیں مناتا
تحریر: زمین زھگ
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی، فرض، حقوق، غلام قوم، احساس، اجتماعی، جدوجہد، فرد، قابض، مستقبل، پرکھنا، تعین، فیصلہ، شعوری فیصلہ، تاریخ، امر، مزاحمت۔
میرا نام مہراب ہے اور میں نے اپنے ابُّو کو بہت کم دیکھا ہے۔ وہ بس کبھی کبھار ہی گھر آتے ہیں۔ کبھی کبھی میں دوسرے بچوں کو جب ہر وقت اُن کے والد کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے ابو بہت یاد آتے ہیں۔ جب بھی میں نے امّی سے ابو کے گھر نہ آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ “وہ اس لیے گھر نہیں آتے کیونکہ کل تُم اپنے بچوں کے ساتھ یا پرسوں تمہارے بچے اپنے بچوں کے ساتھ آزادی اور سکون سے رہ سکیں”۔
میرے ابو جب بھی گھر آتے ہیں مجھے کوئی نہ کوئی نئی اور سچی کہانی ضرور سناتے ہیں۔ زیادہ تر کہانیاں جنگجوؤں اور بلوچ سرزمین کے رکھوالوں اور بلوچوں کی آزادی و حقوق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کی ہوتی ہیں۔ جب میں ان لوگوں کی کہانیاں سُنتا ہوں جو سب کچھ قربان کردیتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ یہ لوگ باقی دوسرے زیادہ تر لوگوں کی طرح آرام دہ زندگی گزارنے کی جگہ یہ تکلیف و در پہ دری کی زندگی کیوں گزارتے ہیں۔ جب میں نے یہی سوال ابو سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک غلام قوم سے تعلق رکھنے والے کو جب غلامی کا احساس ہوجاتا ہے تو اس غلامی سے چھٹکارا پانا اور اجتماعی آزادی کے لیے جد و جہد کرنا ہی اس غلام قوم کے فرد کا فرض اور ذمہ داری ہوتا ہے۔ میرے ابو ایک بلوچ سرمچار ہیں اور وہ جنگ کو اپنا فرض کہتے ہیں۔
میرا نام مہراب ہے، اور میں ایک بلوچ ہوں اور بلوچ ایک غلام قوم ہے، جس کی سرزمین پر پاکستان قابض ہے۔ جب مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھ پر بطورِ ایک غلام قوم کے فرزند یہ فرض ہے کہ میں بھی پہاڑوں پر جاکر دشمن سے لڑوں۔ جب میں نے ابو سے کہا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ جنگ پر لے جائیں تو وہ ہنسنے لگے اور کہا “تم ابھی بہت چھوٹے ہو اور یہ عمر تمہاری لکھنے پڑھنے کی ہے”۔ “ابھی تمہارا سب سے بڑا فرض پڑھنا اور سمجھنا ہے کیونکہ ہمیں طاقت کے ساتھ ساتھ علم کے میدان میں بھی خود کو ثابت کرنا ہے اور جب تم پڑھو گے تو اس سے تمہیں چیزوں دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے میں بہت آسانی ہوگی اور تم آسانی سے اپنے فرض کا تعین کر سکو گے اور وہ فیصلہ تمہارا ایک شعوری فیصلہ ہوگا”۔
میں نومبر کو پیدا ہوا ہوں اور میری امی کہتی ہیں کہ جب میں پیدا ہوا تو اُس وقت علاقے میں حالات بہت خراب تھے لیکن پھر بھی ابو آئے تھے انہوں نے مجھے گود میں اُٹھایا میرا ماتھا چھوما اور کہا “اس کا نام مہراب ہوگا”۔ وہ نہ بیٹھے نہ ہی کچھ کھایا اور بنا پانی پیئے رات کے اندھیرے میں نکل گئے۔ ہم 13 نومبر کو ہر سال “شہدائے بلوچستان” مناتے ہیں۔ اس دن ہم بلوچ دھرتی کی خاطر جان دینے والے ہر شہید کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور یاد کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں پر اور جد و جہد پر انہیں سلامی دیتے ہیں اور ان کے نظریے کو آگے لے جانے کا عہد کرتے ہیں۔
تین چار سال پہلے جب میں نے اپنے جنم دن والے دن امی جان سے میرا نام مہراب رکھنے کی وجہ پوچھی تو امی نے مجھے “میر مہراب خان” کی کہانی پڑھنے کو دی اور کہا تمہارے ابّو نے انہی سے متاثر ہو کر تمہارا نام مہراب رکھا تھا۔ آج سے 180 سال پہلے جب انگریزوں نے بلوچ سرزمین پر قبضے کی نیت سے یلغار کیا تو میر مہراب خان نے انگریزوں کے سامنے سرینڈر کرنے کے بجائے آخری دم تک ان سے لڑتے ہوئے شہادت نوش کیا اور تاریخ میں امر ہوگئے اور اُن عظیم جانثاروں کی فہرست میں شامل ہوئے جو کسی بھی طاقت کے سامنے جُھکنے کے بجائے مزاحمت کو ترجیح دیتے ہیں۔
میرا نام بھی مہراب ہے۔ میری عمر 13 سال ہے اور میں پڑھنے اور سمجھنے کا فرض ادا کر رہا ہوں۔ اور تین سال ہوگئے ہیں کہ میں پہلے کی طرح 4 نومبر کو اپنا جنم دن نہیں مناتا۔ جب میں نے میر مہراب خان کی کہانی پڑھی تو میں نے سوچا 4 نومبر کو کیک کاٹ کر دن ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ میں اس دن کو خود پر فرض سمجھ کر شہداء کی زندگی پر کچھ لکھوں کیونکہ اگر میں مہراب کی طرح کر نہیں سکتا کیونکہ مجھ میں بندوق اُٹھانے کی طاقت ابھی تک نہیں۔ لیکن میں مہراب خان کے نظریے کو کسی دوسرے تک پہنچا کر زندہ تو رکھ سکتا ہوں۔ جب میں نے امّی جان کو یہ بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ یہ میرا پہلا “شعوری فیصلہ” ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔